ہم تو علمی باتوں سے ہٹ کر روزمرہ کی زندگی میں سے لئے واقعات کا ذکر کرنے چلے ہیں کہ رات کو گاڑی والوں کو اپنی کار کی لائٹیں ڈِم رکھناچاہئیں تاکہ جس سڑک کے مالکانہ حقوق حاصل کرنے کی انہوں نے ناکام کوشش کی ہے وہ دوسرے شہریوں کے حقوق میں بھی شامل ہے۔ایک ہی سڑک ہے جس پر سب گزر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ راستہ سب کا ہے۔سب کا اس پر برابر حق ہے۔یہ نہیں کہ جس کے پاس بڑی گاڑی ہو وہ کسی راستے پر جانے کا زیادہ حق رکھتا ہے‘ہمارے یہاں یہ ملامتی عام ہے اور سرِعام ہے پھر سرِ راہ ہے۔ ہوش کے ناخن رکھنے والوں کو اس طرح کا کام درکار نہیں‘ ناخن تو سب کے ہیں مگر ہوش کے ناخن ہر ایک کے نہیں ہوتے۔جس کے ہوتے ہیں وہ نظر بھی نہیں آتے‘ ہمارے شہر میں رات کے وقت تو کیا دن کو بھی یہ عالم ہے کہ آدمی سے ڈرو اور رات کو روشنی سے ڈرو۔مگر ہو سکے تو رات کو بھی تو آدمی سے ڈرنا۔کیونکہ جوتی چراتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی۔ جب یہ حال ہو تو خود ہی بتلائیں کہ ہم بتلائیں کیا۔رات کو سڑکوں پر چراغاں سا عالم ہوتا ہے۔بقول ناصر کاظمی ”یاد ہے سیرِ چراغاں ناصر۔ دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں“۔چراغوں کا میلا ہوا کرتاتھا۔ ہر طرف روشنیاں ہی روشنیاں ہوتی تھیں۔مگر ان میں گھومنے پھرنے والے بعض دلوں کے چراغ بجھے ہوتے تھے۔ ایسا جانے کیوں ہوتا ہے۔مگر ہوتا ہے کوئی روک کہاں سکتا ہے۔شہر میں راتوں کو اندھیروں کا راج تو ہوتا ہے مگر ان اندھیاروں میں جو روشنیاں ہائی سپیڈ سے جل رہی ہوتی ہیں ان کا سدباب مشکل ہے‘روشنی کی بھی ایک حد ہے اور ہر چیز کی ایک حد ہے‘روشنی اندھیرے ہی کے پیٹ سے جنم لیتی ہے۔جب رات گہری ہوتی جاتی ہے تو اندھیرا بھی زیادہ گھمبیر ہوتا جاتا ہے۔اتنا کہ جب رات زیادہ ہو جائے تو صبح سمے ٹھاک سے اندھیرا پھٹ جاتا ہے او راس کے فریم کو چاک کر کے دن کی روشنی باہر جھلکنا شروع ہو جاتی ہے۔احمد ندیم قاسمی کا شعر ہے ”رات جب شدتِ ظلمت سے جل اٹھتی ہے ندیم۔ لوگ اس وقفہ ئ ماتم کو سحر کہتے ہیں“۔اسی طرح دیکھنے کی بھی ایک حد ہے۔ چیزیں جب تلک نظر آتی ہیں تو آتی ہیں۔ مگر جب دور جاتے ہوئے اتنی دور چلی جاتی ہیں کہ نظرآنا بند ہو جاتی ہیں۔کنارِ راوی علامہ اقبال کی ایک نظم ہے۔جس میں انہوں نے یہی فلسفہ بیان کیا ہے۔دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے وہ کشتی کو دیکھتے ہیں جو پاس سے گزر کر اتنا دور ہو جاتی ہے کہ نظر آنا بند ہو جاتی۔مگر اس کانظر نہ آنا ثبوت نہیں کہ کشتی آگے جا نہیں رہی۔مگر ہماری نگاہیں اس کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ہاں دور بین لگا کر دیکھو تو نظر آ جائے گی۔پھر دور جا کر نظر نہ آنا تو رہی اور بات۔یہاں تو چیزیں جب حد سے زیادہ قریب ہوں تو بھی نظر نہیں آتیں۔انسان کی نظر کی ایک حد ہے۔حد سے زیادہ قریب کی چیز بھی اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔جب کتاب کو ہاتھ میں تھام کر دیکھیں تو نظر آئے گی مگر جب آنکھوں کے ساتھ لگا کر دیکھیں تو اس کے کسی ورق کاایک لفظ بھی ہوتے سوتے نظر نہیں آئے گا۔ مجبوراً کتاب کو تھوڑا پیچھے کرنا پڑے گا کہ نظر آئے۔حد سے زیادہ روشنی میں چیزیں غائب ہو جاتی ہیں۔ثبوت یہ کہ رات کو گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس جب بھاری بھرکم انداز سے جلتی ہیں تو اس عام آدمی کو گاڑی بھی نظر نہیں آتی او راس کے پیچھے کیا ہے وہ منظر بھی نظر نہیں آتا۔کتنے مغرور ہو تے ہیں وہ لوگ جو اپنی نگاہوں کو نیچا نہیں رکھتے اور کتنے سفاک ہوتے ہیں وہ شہری جو اپنی گاڑیوں کی لائٹس کو رات کے وقت نیچے نہیں کرتے تاکہ سامنے سے آنے والے کی آنکھیں چندیا نہ جائیں اور ان کو ایسا نہ ہو نظر نہ آئے اور ایسا نہ ہو ایسے عالم میں کوئی حادثہ رونما نہ ہو۔مگر وہ اس بات سے بے پروا ہو کر رات کو دن کے بارہ بجے کاسماں پیدا کر کے روشن و رخشاں ماحول میں جاتے ہیں کہ بس ہمیں نظر آئے دوسرے کو نظر نہ آئے۔حالانکہ وہ لوگ وہاں دھیمی روشنی میں بھی گزر سکتے ہیں۔مگر وہ ایسا نہیں کرتے۔بھاری لائٹس آن کر رکھی ہوتی ہیں۔ایسے میں سامنے سے آنے والی سائیکل ہو موٹر سائیکل ہو رکشہ ہو چنگ چی ہو۔ ان چھوٹی گاڑیوں والوں کو نظر نہیں آتا۔ان حالات میں کافی مرتبہ حادثات پیش آ چکے ہیں۔