کتب بینی

انسان کاکتاب سے بہتر کوئی دوست نہیں ہو سکتا اس لئے اگلے روزہمیں کسی علم دوست کا ویمن یونیورسٹی صوابی میں ایک تقریب کے شرکاء کو یہ مشورہ اچھا لگا کہ آپ کو کوئی کتاب تحفے میں دے تواس کی قدر کریں مصر کاایک کتاب فروش رات کو اپنی دکان بند کرتے وقت اس کے دروازے کو تالہ نہیں لگاتا تھا،ایک دن اس سے کسی نے پوچھا کہ اسے ڈر نہیں لگتا کہ کوئی شخص رات کو اس کی دکان سے کہیں کتابیں چرا کے لے جائے گا تو اس نے معنی خیز جواب دے کر سوال کرنیوالے کو لاجواب کر دیا۔ کتاب فروش نے اسے کہا کہ کتب بینی کا شوق رکھنے والا کبھی بھی چوری نہیں کر سکتا۔ افسوس کہ یہ شوق وطن عزیز میں عنقاہوتا جا رہا ہے۔ اس ملک میں جوں جوں  بوتل میں بند پانی کااستعمال زور پکڑ رہا ہے اس نوع کی خبریں بھی روزانہ چھپ رہی ہیں کہ اس حوالے سے بعض کمپنیاں حفظان صحت کے معیار  کا خیال نہیں رکھتیں جس سے ملک میں معدے کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں دیکھا جائے تو ملک میں پینے کے پانی کا مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے اور ایک وقت اگر کسی جگہ پر پانی پچاس میٹر کی گہرائی میں نکل آتا تو اب دو سو میٹر تک پانی نیچے چلاگیا ہے، اگریہی صورتحال رہی تو وہ وقت دور نہیں جب پانی نایاب ہوجائے اور زندگی کا یہ اہم منبع خشک ہو جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پانی کے استعمال سے متعلق ہم اپنی عادات پر غور کریں، پانی ضائع کرنے کی جو روش ہمارے ہاں جاری ہے اس سے گریز کی ضرورت ہے،ایسے حالات میں کہ جب پینے کیلئے مناسب پانی دستیاب نہیں، صاف پانی سے گاڑیوں کے دھونے پر پابندی لازمی ہے۔ سروس سٹیشنز پر پانی کو بار بار استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی کے بغیر کسی کو سروس سٹیشن کی اجازت نہ دی جائے۔  ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد اگر چند دیگر اہم عالمی اور قومی امور کی خبروں کا ہلکا ساتذکرہ ہو جائے تو کیا قباحت ہے۔یہ عالمی سفارت کاری کا ایک مسلمہ طریقہ کار ہے کہ جب کبھی بھی دو ممالک میں تعلقات خراب ہوں یاہونے لگیں تو وہ اپنے ملک میں ایک دوسرے کے باشندوں کے داخلے پر پابندی لگا دیا کرتے ہیں آج کل روس اور امریکہ نے پابندیاں لگانے کا یہ سلسلہ شروع کر دیاہے جو اس حقیقت کی غمازی کر رہا ہے کہ ان دونوں ممالک میں پہلے سے ہی موجود خراب حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ روس اس بات پر بھی امریکہ سے نالاں ہے کہ اس کے تیار کردہ ایف 16 جنگی طیارے امریکہ کے اشارے پر اس کے بعض حواری مغربی ممالک یوکرین کو فراہم کر رہے ہیں۔ روس ابھی تک امریکہ کی ان ریشہ دوانیوں کو بھلا نہیں سکا کہ جن سے اس نے سوویت یونین کو1980 کی دہائی میں ٹکڑے ٹکڑے کیا اور جس طرح وہ اب بھی کوشاں ہے کہ وسطی ایشیا کی ریاستیں روس کے ساتھ دوبارہ نہ مل پائیں۔ ایران اور سعودی عرب میں پس پردہ چین کی کوششوں سے جو مفاہمت کی فضا بنی ہے اس پر دل میں تو  واشنگٹن خوش نہیں ہے پر بظاہر اس نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اسی طرح وہ اس پر بھی خوش نہیں کہ شام ایک بار پھر عرب لیگ کا رکن بن گیا ہے اور حال ہی میں اس تنظیم کی سربراہی کانفرنس میں شام کے صدر بشار الاسد کی شرکت اور سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک کی طرف سے اس کا گرم جوشی سے استقبال امریکہ سے شاید ہضم نہ ہو اور وہ کسی بھی صورت میں یہاں پر امن پر ضرب لگانے سے باز نہیں آئے گا۔کیونکہ امریکہ ہر گز نہیں چاہتا کہ مشرق وسطیٰ میں امن ہو کہ جس سے عالم اسلام کو فائدہ  پہنچے۔ آخر میں ہم ریڈیو پاکستان پشاور کاذکر کریں گے۔بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ریڈیو پاکستان پشاور کا شمار برصغیر کے ان  معدودے چند پرانے ریڈیو سٹیشنوں میں ہوتا ہے کہ جو 1930 کی دہائی میں بنے تھے۔یہ تو آپ کو پتہ ہی ہوگا کہ ریڈیو کا موجد مار کونی تھا جو ان دنوں بقید حیات تھا،خیبر پختونخوا کے ایک سابق لیڈر صاحبزادہ عبدالقیوم گول میز کانفرنس میں شرکت کے واسطے 1930 میں جب  انگلستان کے دورے پر تھے تو انہوں نے وہاں ان سے ملاقات کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ پشاور کیلئے مارکونی ریڈیو کی مشینری فراہم کریں جو مارکونی نے خوشی خوشی قبول کر لی اور اسکے ساتھ ان کو ریڈیو کے چند ریڈیو سیٹ بھی دئیے جو وطن واپسی پر صاحبزادہ عبدالقیوم نے اپنے صوبے کے  خان خوانین کے حوالے کئے جو انہوں نے اپنے حجروں میں رکھ دئیے جہاں پر رات کے وقت گاؤں کے لوگ ان کی نشریات سننے کیلے حجروں میں جمع ہوتے تھے۔ بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان پشاور کو پشاور سکریٹریٹ کی پرانی بلڈنگ کے ایک کمرے میں ریڈیو ٹرانسمیٹر رکھ کر  شروع کیا گیا تھا اور ریڈیو کا موجد مارکونی اس موقعہ پر وہاں موجود تھا۔ بعد میں اسے اس عمارت میں شفٹ کر دیا گیا جو پرل کانٹینینٹل ہوٹل کے سامنے واقع ہے اور جس میں آج کل سپریم کورٹ کی رجسٹری برانچ کام کر رہی ہے اور اس کے بعد اسے  موجودہعمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ ریڈیو پاکستان کے پہلے انچارج  اسلم خٹک  تھے،اسی ریڈیو سٹیشن میں بطور براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری نے بھی کام کیا برصغیر کے معروف فلم اداکار پرتھوی راج کپور، آغا طالش، قوی خان اور خلیل خان نے بھی اس ریڈیو سٹیشن پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا افسوس کہ ہم نے  اپنے ابلاغ عامہ کے اس تاریخی ورثے کو اپنے ہاتھوں نقصان پہنچایا۔اس تاریخی ریڈیوسٹیشن کی جلد از جلد مکمل بحالی ضروری ہے۔