اس وقت ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے حوالے سے خبریں اور تجزئیے اخبارات اور ٹی وی چینل کی زینت ہیں اور ہر کوئی اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ اگر انڈیا ایشیا کپ کھیلنے پاکستان نہیں آتا تو ہم بھی ورلڈ کپ کے لیے انڈیا نہیں جائیں گے۔ایک ایسے وقت میں جب رواں سال ہونے والے ایشیا کپ سے متعلق پہلے ہی ایک غیر یقینی صورتحال تھی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین نجم سیٹھی کے انڈین میڈیا کو دئیے اس حالیہ بیان نے سرحد پار سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا ہے۔انڈیا میں جہاں ان کے ورلڈکپ میں شرکت سے متعلق بیان پربحث ہورہی ہے وہیں پاکستان میں بھی ان کے اس بیان پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ ایک طرف کرکٹ شائقین نجم سیٹھی کو سراہتے نظر آئے کہ ان کا انڈیا نہ جانے کا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے جبکہ دوسری جانب سابق پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے کہا کہ ایسا بیان نہیں دینا چاہئے تھا بلکہ لڑکوں کو کہنا چاہئے تھا کہ وہ جا کر کھیلیں اور ورلڈ کپ جیت کر آئیں۔ دیکھا جائے تو دونوں کی رائے غلط نہیں، نجم سیٹھی بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینے کے حامی ہیں اور شاہد آفریدی کھی کی زبان میں جواب دینا چاہتے ہیں۔پی سی بی کے سربراہ نجم سیٹھی نے ایسا سخت موقف کیوں اپنایا، ایشیا کپ اور ورلڈکپ سے متعلق ان کی ٹیم کو لے کر کیا توقعات ہیں۔ اس حوالے سے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ورلڈ کپ کے لیے انڈیا جانے کا فیصلہ دونوں جانب حکومتوں کا ہی ہوگا یہ فیصلہ اس جانب انڈین حکومت کا ہے اور اِدھر پاکستانی حکومت کا ہے۔نجم سیٹھی کے مطابق سکیورٹی کے خدشات ہی وہ واحد وجہ ہے جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اگر پاکستانی حکومت نے کہا کہ آپ جائیں ورلڈ کپ کھیلنے تو ہم ضرور جائیں گے۔اس بیان کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ انڈیا نے گذشتہ سال اکتوبر میں ہی پاکستان کو دو ٹوک جواب دے دیا تھا کہ وہ سکیورٹی خدشات کے باعث ایشیا کپ کھیلنے پاکستان نہیں آئیں گے۔پاکستان کی جانب سے اس فیصلے کی بھرپور مذمت کی گئی اور کرکٹ بورڈ نے اس پر خوب احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ جب اس سب سے بات نہیں بنی تو میڈیا میں چند ماہ قبل ہائبرڈ ماڈل کا شور مچنے لگا۔نجم سیٹھی نے میڈیا انٹرویوز میں اس کی وضاحت کی اور بتایا کہ یہ ماڈل اس تمام مسئلے کے حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔اس ماڈل کے تحت ٹورنامنٹ کے شروع کے چار یا پانچ میچیز پاکستان میں کھیلے جائیں گے جس کے بعد تمام ٹیمیں اپنا بوریا بسترا گول کر کے ایک نیوٹرل وینیو پر چلی جائیں گی اور ٹورنامنٹ کے بقیہ میچز وہاں منعقد ہوں گے۔نجم سیٹھی کے مطابق انڈیا کواس صورت میں پاکستان کا دورہ نہیں کرنا پڑے گا اور بطور میزبان پاکستان بھی ایشیا کپ کے چند میچز کی میزبانی کرنے کا اہل ہوجائے گا۔اس ضمن میں نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ دس روز قبل ان کی بی سی سی آئی کے سربراہ جے شاہ کی درخواست پرایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے نائب صدر پنکج کِھمجی سے ملاقات ہوئی ہے۔واضح رہے کہ نجم سیٹھی دبئی میں ہونے والی اس ملاقات کا تذکرہ تو مختلف انٹرویوز میں کر چکے ہیں لیکن ملاقاتی کا نام پہلے نہیں ظاہر کیا تھا۔نجم سیٹھی کے مطابق پنکج کھمجی کے ساتھ تفصیل سے ہائبرڈ ماڈل کی تفصیلات شیئر کی گئی تھیں جو انھیں پسند بھی آئیں۔ نجم سیٹھی کے مطابق پنکج کھمجی کی طرف سے مثبت ردعمل آیا ہے اور انھوں نے کہا کہ وہ جے شاہ کے ساتھ جا کر اس پر تبادلہ خیال کریں گے۔انہوں نے کہا کہ وہ 15 مئی کو رابطہ کریں گے۔۔نجم سیٹھی کے مطابق ہائبرڈ ماڈل گزشتہ ماہ ایشین کرکٹ کونسل کی میٹنگ میں پیش کیا گیا تھا اور ایشیائی ممالک کو اصولی طور پر اس پر اعتراض نہیں تھا بلکہ انھیں اعتراضات اس بات پر تھے کہ یہ کیسے ممکن ہو پائے گا؟ آنا جانا کتنا زیادہ ہوگا؟ پروڈکشن یونٹس کتنے استعمال ہوں گے؟جب پی سی بی چیئرمین سے یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ اعتراضات دور کردئیے گئے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس میٹنگ کے بعد ایک جامع پلان تمام رکن ممالک کو دیا گیا تاکہ یہ اعتراضات دور کیے جاسکیں۔ایشیا کپ کے لئے ممکنہ نیوٹرل وینیوز کے ناموں میں سری لنکا، متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ لندن کا بھی نام میڈیا رپورٹس کی زینت بنا ہوا ہے۔اس حوالے سے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ مجھے احساس ہے کہ سری لنکا کی جانب سے اے سی سی پردبا ؤہے کہ نیوٹرل جگہ کے لیے سری لنکا کا انتخاب کیا جائے۔متحدہ عرب امارات کے حوالے سے نجم سیٹھی کے مطابق سری لنکا کو اعتراضات تھے کہ ستمبرمیں وہاں بہت گرمی ہو گی اور کھلاڑیوں کے لیے ایک روزہ میچز کھیلنا کافی مشکل ہوگا۔نجم سیٹھی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اسی موسم میں یہاں پہلے بھی ایشیا کپ اور آئی پی ایل منعقد کروائے جا چکے ہیں اور یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔پی سی بی چیئرمین کے مطابق کون سے ملک میں میچز کا انعقاد کرایا جاتا ہے؟ اس فیصلے میں سب سے اہم گیٹ منی(میچ کی ٹکٹوں کی فروخت سے آنے والی رقم) ہے اور یہ رقم ہمیشہ میزبان ملک کو ملتی ہیں جو اس مرتبہ پاکستان ہے۔سری لنکا میں اگر میچیز کھیلے جاتے ہیں تو گیٹ منی کافی کم ہو گی۔ ان کا ماننا ہے کہ دبئی اور لندن سے گیٹ منی کافی بڑی تعداد میں اکٹھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر متفقہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ میچیز سری لنکا میں ہی ہونے ہیں اور ہمیں وہ اس کا معاوضہ دے دیتے ہیں تو اس پر بھی بات ہوسکتی ہے۔پی سی بی نے یہ واضح کردیا ہے کہ رواں سال انڈیا میں ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شرکت حکومتی اجازت سے مشروط ہے۔انڈیا نے آخری مرتبہ پاکستان کا دورہ 2008 میں کیا تھا جس کے بعد سے انڈین کرکٹ بورڈ نے تواتر سے حیلے بہانے کرکے پاکستان کا دورہ نہیں کیا‘اس کے برعکس پاکستان نے 2016 میں انڈیا کا دورہ کیا اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شرکت کی۔ ایک سوال کے جواب میں نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ اب سکیورٹی کا کوئی اِیشو نہیں۔ اب ساری دنیا کی ٹیموں نے پاکستان آ کر کھیل لیا ہے۔ 2016 اور 2023 میں بڑا فرق ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سے حال ہی میں گرانٹ بریڈبرن کو بطور ہیڈ کوچ تعینات کرنے کا اعلان کیا گیا جو مکی آرتھر کی ٹیم کا ایک اہم حصہ ہیں۔نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ مکی آرتھر پاکستانی ٹیم سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اور وہ ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کے ساتھ ہوں گے اور وہ ایشیا کپ میں انڈیا کے میچز سے قبل بھی ڈریسنگ روم میں موجود ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکی آرتھر کی ہر سانس میں پاکستان کرکٹ رچی بسی ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے باضابطہ طور پر نئی سیلیکشن کمیٹی کا اعلان تو نہیں کیا مگر چیئرمین پی سی بی نے کمیٹی کے ارکان کے نام بتا دئیے ہیں۔ نجم سیٹھی کے مطابق نئی سیلیکشن کمیٹی کی سربراہی ہارون رشید کریں گے جبکہ دیگر ارکان میں مکی آرتھر، گرانٹ بریڈبرن اور حسن چیمہ شامل ہوں گے۔حسن چیمہ سے متعلق بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ان کی شمولیت یہ یقینی بنائے گی کہ سیلیکشن کے دوران ڈیٹا پر بھی انحصار کیا جائے اور حسن اس فیلڈ کے ماہر ہیں۔پاکستان نے 2019 کے ورلڈ کپ کے بعد صرف 27 ایک روزہ میچز کھیلے ہیں جبکہ باقی فل ممبرز نے اس کے برعکس اس سے کہیں زیادہ میچز کھیلے ہیں۔کم میچ پریکٹیس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ پہلے تو میں بہت پر امید ہوں کہ ایشیا کپ ضرور ہوگا لیکن اگر وہ کسی بھی وجہ سے نہیں ہوتا تو بورڈ نے اس کی جگہ ایک سہ فریقی سیریزکرانے کا پلان بنایا ہے جو ایشیا کپ کی مقرر کردہ تاریخوں پر منعقد ہوگی۔