دنیا میں مودی کی سفارتی تنہائی میں G20 اجلاس نے اضافہ کیا ہے اور اس تنہائی کو وسیع کرنے میں چین کی سفارت کاری کا بڑا عمل دخل ہے۔چین واحد سپر پاور ہے کہ جس نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی بر بریت کے خلاف دنیا کے ہر پبلک فورم میں کھل کر بھارت کی مذمت کی ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ جہاں تک سیاسی فہم ادراک اور فراست کا تعلق ہے چین کی قیادت تمام مغربی سپر پاورز کی قیادتوں پر حاوی ہے۔ اس کے پیچھے بہت پرانی تاریخ ہے جب کہ اکثرمغربی ممالک بشمول امریکہ ان معاملات میں ابھی طفلِ مکتب ہیں۔ برطانیہ اور دیگر کئی ممالک دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں اکثر سیاسی مصلحت کا شکار رہتے ہیں وہ ہمیشہ گول مول بات کرتے ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے جو پہاڑ ڈھا رہا ہے اس کی کبھی بھی انہوں نے کھل کر مذمت نہیں کی۔روس کے اس تازہ ترین انتباہ نے کہ یو کرین کو ایف سولہ طیارے دینے کے فیصلے پر مغرب بڑے خطرات کیلے تیار رہے امریکہ اور روس میں موجود کشیدگی میں مزید شدت پیدا ہو گئی ہے کیونکہ اگر امریکہ مغربی یورپ کے ممالک کی ہلہ شیری نہ کرے تو وہ از خود روس کے ساتھ
یوکرین کے تنازعے پر پنگا نہیں لے سکتا۔روس نے پہلے ہی خبر دار کیا ہے کہ یوکرین کو جنگی طیاروں کی فراہمی سے نیٹو پر سوال اٹھیں گے۔واشنگٹن میں روسی سفارت کار کا کہنا ہے کہ کییف کو امریکی ایف سولہ جنگی طیارے فراہم کرنے سے یوکرین کی جنگ میں نیٹو کی شمولیت پر سوال اٹھیں گے۔اناتولی انتونوف نے پیر کے روز سفارت خانے کے ٹیلی گرام چینل پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا، ''یوکرین میں ایف 16 جنگی طیاروں کے آپریشن کے لیے کوئی بنیادی ڈھانچہ تک نہیں ہے اور پائلٹوں اور دیکھ بھال کرنے والے افراد کی مطلوبہ تعداد بھی نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا: ''ایسی صورت میں کیا ہو گا جب امریکی جنگی طیارے نیٹو کے ان ہوائی اڈوں سے پرواز بھریں گے، جن کا کنٹرول غیر ملکی ”رضاکاروں“کے پاس ہے؟اب ذرا چند مزید ملکی اہم ایشوز پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جاے تو کوئی قباحت نہیں، حکومت عوام کو یہ کہہ کہہ کر تھک ہار چکی ہے کہ خداراخوشی بیاہ کے موقعوں پر ہوائی فائرنگ سے اجتناب کیا جائے، پر مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہوائی فائرنگ کے واقعات سے کئی بے گناہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ حکومت البتہ فوری طور پر یہ اقدام ضرور اٹھائے کہ وہ ممنوعہ بور کے آ ٹو میٹک اسلحہ جیسا کہ کلاشنکوف کا استعمال ہے پر فورا ًپابندی لگا دے کہ اس کے استعمال سے کئی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ روایتی ایندھن پر انحصار کم کر کے ملک میں موثر اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ ٹیکنالوجی کو فروغ دینا از حد ضروری ہے ورنہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ہول ناک اثرات سے ہمیں مستقبل میں مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے‘ ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسرائیل اور بھارت کا یہ مشترکہ ایجنڈا ہو کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے کیونکہ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو گا کہ جب فلسطینیوں اور کشمیریوں کو موت کے گھاٹ نہ اُتارا جاتا ہو۔گرمی پڑتے ہی اسلام آباد میں پانی کی قلت پیدا ہو گئی ہے، سملی ڈیم سے سپلائی یومیہ 32 ملین گیلن سے گھٹا کر 22 ملین گیلن کر دی گئی ہے۔ سی ڈی اے کے اکثر واٹر ٹینکر خراب ہیں اور فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مرمت نہیں کی جا رہی۔ وطن عزیز میں پہلی مردم شماری 1951میں ہوئی دوسری 1961 میں تیسری 1972میں چوتھی 1981میں پانچویں 1998میں اور چھٹی 2017میں حال ہی میں جو ساتویں مردم شماری ہوئی ہے اس کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے۔ اصولی طور پر اسے ہر دس سال بعد کرنا ضروری ہے کیونکہ آبادی کے درست اور تازہ ترین اعداد و شمار کے بغیر پلاننگ کمیشن آف پاکستان ملک کیلئے ترقیاتی منصوبوں کو تشکیل نہیں دے سکتا۔اس مرتبہ مردم شماری میں جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی گئی ہے اورتمام کوائف اور اعداد و شمار ڈیجیٹل طور پرمحفوظ کئے گئے ہیں اس لئے امید ہے کہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ درست ڈیٹا اور اعداد و شمار سامنے آئیں گے،جن کی مدد سے موثر ترقیاتی منصوبہ بندی ممکن ہو سکے گی اور بہت سارے مسائل حل ہوں گے۔