اب تک تو موسم خلاف معمول ٹھنڈا رہا ، تاہم اب اچانک سے گرمی جو بڑھنے لگی ہے تو سوئمنگ پولوں کے دروازے کھل گئے ہیں۔ تالاب کے رُکے ہوئے پانی میں سب نہائیں ۔مگر جہاں نہانے کی بات ہے تو دریا بھی آج کل اژدہے کا روپ دھار چکے ہیں۔ بندے کو ثابت ہی نگل لیتے ہیں۔وہ جس کو تیرنا آتا نہ ہو وہ دریا میں کیوں ڈبکی لگائے۔پھر جسے تیرنا آتا بھی ہے اس کو بھی حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔کیونکہ پشاو رکے قرب و جوار کے دریا¶ں میں شہریوں کے ڈوبنے کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ پانی جب اپنے زور پر ہوتا ہے تو وہ تیرنے والے کو نہ ڈبونے کی خاطر اس سے تیراکی سیکھے ہونے کا سرٹیفیکیٹ نہیں مانگتا ۔ وہ تو ہر ایک کو جس کی اس دریا کی موجوں کے ساتھ آشنائی ہے یا نہیں دونوں کو حسبِ موقع رگڑا دیتا ہے۔پاس ہی گندی نہریں بھی بہہ رہی ہیں۔جہاں بچے گرمی کے دنوں میں نہاتے ہیں ۔پھر فخر کے مارے اس میں غوطہ زن ہونے کے بعد سر ابھارتے ہیں اور پھر نیچے پانیوں میں دوبارہ گم ہو جاتے ہیں۔نہروں کے پانی میں شہریوں کی جانب سے دنیا جہان کی غلاظت گرائی جاتی ہے۔جس کے جراثیم پانی کے ذریعے ناک اور منہ میں داخل ہوتے ہیں ۔جس سے کئی ایک بیماریاں بندے کو آن پکڑتی ہیں۔منہ کھلا ہوتا ہے اور کانوں کے سوراخوں اور ناک میں یہ جراثیم پہنچ کر بندے کو کسی نہ سی جھنجٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ان دنوں موسم گرم ہونے لگا ہے اور محکمہ موسمیات نے تو گرمی کی شدید ترین لہر سے خبردار کیا ہے بلکہ پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیا ں بھر پور انداز سے رواج پا رہی ہیں۔کچھ علاقوں میں بارشیں ہیں تو کہیں پر گرمی زروں پر ہے ،ہمارے صوبے کو چھوڑ کر باقی کے تین صوبوں میں لوگ اُ ف اُف کر رہے ہیں۔کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی کہ کہاں جائیں۔ ایسے میں لڑکے بالے بے فکرے انداز میں ان گہرے پانیوںاور کھڑے ہوئے گندے پانیوں کا رخ کرتے ہیں۔گلیشئر پگل کر پل پر گر رہے ہیں اور پل پانیوں میں گررہا ہے ۔یہی پانی دریا¶ں کا رخ کرکے یہاںسے وہاں شمال سے جنوب پورے ملک میں سانپ کی طرح رینگ کر آگے کو جاتا ہے۔جو راستہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے اس کو مٹا کر رکھ دیتا ہے۔ان دنوں اگرگرمی کا حال بے حال ہے تو آگے جو گرمی کے سخت مہینے آنے والے ہیں جانے ان مہینوں میں کیا ہو گا۔ان دنوں بعض شہروں کا پارہ چاالیس سے آگے جارہاہے ۔اب یہ حال تو آئندہ مہینوںمیں اس سے زیادہ موسم کی سختی ہوگی۔ملک میں خواہ کوئی شہر ہو حیات آباد ہو یا اسلام آباد ہو پارہ اوپر ہی اٹھتار رہے گا ۔ابھی تو جون رہتا ہے اور پھر اس کے بعدجولائی بھی توآنے والا ہے۔پھر پہاڑ جیسا اگست کا گرم مہینہ تو گزارے نہیں گزرتا ۔موسمیات کے ماہرین نے بین الاقوامی سطح پر درجہ حرارت میں اضافے کا پہلے ہی بتا دیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہ آنے والے دنوں میں گرمی کے ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں اور 2022ءکو اگر گرم ترین سال قرار دیا تھا تو اب آنے والے سالوں میں اس سے بھی زیادہ گرمی پڑسکتی ہے ۔
اور یہ سلسلہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں درجہ حرارت آخری حدود کو چھونے لگے گا۔
اگر گرمی کا احساس زیادہ ہے تو قریب کے دریا¶ں کے کنارے کے قریب کے پانی میں نہالینے سے کچھ نہیں ہوتا ۔مگر ہمارے ہاں توجو موجوں کے رکابوں میں اپنے پا¶ں ڈال دیتے ہیںاور ساتھ ان گھوڑوں کی لگامیں تھام کر کناروں کے قریب سے دور جانے کی کوشش میں اتنا دور چلے جاتے ہیںکہ جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔ بعض ماں باپ کواچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا بچہ شرارتی ہے ‘مگر پھر بھی وہ ان پر نگاہ نہیںرکھتے‘ ۔سو اپنے بچوں پر رحم کیجئے اور ان پر پوری نگاہ رکھیں کہ کہاں گئے اور کس وقت واپس آئے ۔چونکہ گرمی کے دن ہیں ۔پھر یہ نہیں کہ یہ نہانے کے دن نہیں ہیں ۔ نہائیں مگر اپنی ذمہ داری کا احساس کر کے ۔موسموں کاآنا جانا لگا رہے گا، کبھی گرمی تو کبھی سردی، تاہم زندگی جائے تو کبھی واپس نہیںلوٹتی، اس لئے موسم کی شدت کا مقابلہ جان پر کھیل کر نہ کیجئے۔