یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے اکثر مسائل کی بنیادی وجہ گڈ گورننس کا فقدان ہے اس پر میں کسی اگلے کالم میں تفصیل سے روشنی ڈالوں گا‘اس جملہ معترضہ کے بعد سب سے پہلے تذکرہ ہو جائے بین الاقوامی منظر نامے کا تو کوئی قباحت نہیں۔روس اورا مریکہ کے درمیان براہ راست جنگ کے امکانات میں اضافہ ہورہاہے اور یہ پوری دنیا کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ یوکرین نے روس کے اندر حملہ کرکے جنگ کے دائرے کو روس تک وسیع کرد یا ہے اور اس جھڑپ میں جو گاڑی پکڑی گئی ہے وہ امریکی ساختہ ہے۔اس واقعے کو بین الاقوامی میڈیا نے خوب اہمیت دی ہے اور روسی حکام کے مطابق سرحدی علاقے بیلگوروڈ پر پھر سے فضائی حملے کی کوشش کی گئی ہے، اس سے قبل اس نے متعدد حملوں کا ناکام بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ ادھر امریکہ نے اس طرح کی دراندازی سے خود کو الگ رکھنے کی بات کہی ہے۔یوکرین کی سرحد کے قریب روسی علاقے بیلگوروڈ کے گورنر کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ ایک بار پھر سے ڈرون حملوں کی زد میں آیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹیلیگرام چینل پر اطلاع دی کہ دھماکہ خیز مواد گرایا گیا تاہم اس میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔اس سے قبل روس نے کہا تھا کہ اس نے 24 گھنٹے کی لڑائی کے بعد خطے پر یوکرین کے تخریب کاروں کے حملے کو ناکام بنا دیا، جس میں 70 حملہ آوروں کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔ تاہم کییف نے ان حملوں میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہروز سرحدی علاقے بیلگوروڈ کے کچھ حصے حملوں کی زد میں آئے تھے اور کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ برس یوکرین پر حملے کے بعد سے روس کے اندر سرحد پار سے ہونے والے حملوں میں سے یہ اب تک کا بڑا حملہ تھا۔روس نے حملے کو ناکام بنانے کے بعد متاثرہ علاقوں میں پڑی تباہ شدہ فوجی گاڑیوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں، جو مغربی ممالک کی ہیں اور اس میں امریکی ساختہ ہموی فوجی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔یوکرین کی سرحد کے قریب بیلگوروڈ کا علاقہ گولہ باری کی زد میں آنے کے بعد، آس پاس کے کئی دیہاتوں کو خالی کرایا گیا۔ روس کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں 70 حملہ آور مارے گئے۔ اس کا اصرار ہے یہ سارے جنگجو یوکرین کے تھے۔امریکہ نے ان اطلاعات کے رد عمل میں کہا کہ وہ روس کے اندر نہ تو حملوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور نہ ہی اس نے اس حملے میں کوئی مدد کی ہے۔امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ سوشل میڈیا پر اس کی فوجی گاڑیوں کی تصاویر گردش کر رہی ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ
واشنگٹن کو ان اطلاعات کے بارے میں اب بھی شکوک ہیں کہ بیلگوروڈ پر حملے کے دوران امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا۔ادھر روسی خبر رساں ایجنسی انٹر فیکس اور تاس نے فوجی ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ دو امریکی بمبار طیاروں کو روکنے کے لیے روس نے اپنے جیٹ طیاروں کو روانہ کیا، جو بحیرہ بالٹک کے اوپر پرواز کر رہے تھے۔پینٹاگون کا کہنا ہے کہ یہ پرواز یورپ میں پہلے سے طے شدہ طویل مشق کی منصوبہ بندی کا حصہ تھی۔ امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان نے کہا کہ روسی طیارے کے عملے کے ساتھ بات چیت محفوظ اور پیشہ ورانہ تھی۔روسی میڈیا کے مطابق جب دو امریکی سوپرسونک بمبار جہاز بی ون بی کو روسی فضائی حدود کے قریب آتے دیکھا تو، اس کے ایس یو27 جنگی طیاروں نے انہیں روکنے کے لئے پرواز بھری۔ان دو مختلف واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یوکرین جنگ میں کسی بھی وقت ڈرامائی واقعہ پیش آنے کی صورت میں عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔بد قسمتی سے اس وقت جو عالمی قیادت ہے وہ مسائل کو ختم کرنے یا ثالثی کی صلاحیت شاید نہیں رکھتی کیونکہ دنیا میں مسائل بڑھ رہے ہیں اور ان کو ختم کرنے والا کوئی نہیں۔یہ الگ بات ہے کہ چین کی پالیسی میں مذاکرات اور مصالحت کو اولین ترجیح حاصل ہے اور اس نے حال ہی میں مختلف ممالک کے درمیان ثالثی کرکے ان کے باہمی تنازعے کو ختم کردیا ہے۔تاہم امریکہ جسے چین کے اثر رسوخ میں اضافے نے بے چین کر دیا ہے،اپنی کوششوں سے باز نہیں آرہا اور کئی مقامات پر چین اور روس کے ساتھ الجھا ہوا ہے۔ ایک طرف اس نے یوکرائن میں روس کے لئے تنازعہ کھڑا کر دیا ہے تو دوسری طرف تائیوان کے مسئلے پر چین کے ساتھ سینگیں پھنسا چکا ہے امریکہ کے اس طرز عمل سے عالمی امن کو جو شدید خطرات لاحق ہیں اس کے حوالے سے کالم سے شروع میں بیان کر چکا ہوں۔