یہ سلوشن ٹیپ کی طرح ایک پٹی ہوتی ہے جس پر انگریزی زبان میں کرائم سین لکھا ہوتا ہے۔ یعنی کسی جگہ حادثہ ہوا یا کوئی اور مسئلہ پیدا ہوا ہے۔سو پولیس کارندے جائے حادثہ کے چوکور وہ پٹی کھینچ تان کر رسی کی طرح لگا دیتے ہیں۔ تاکہ اس کے احاطہ کے اندر تفتیش کار اداروں کے ارکان کے علاوہ اورکوئی نہ جا سکے۔اس لئے کہ کسی کے وہاں قدم رکھنے اور مداخلت سے جائے حادثہ یا جائے وقوعہ کے ثبوت مٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جس سے ابتدائی تفتیشی رپورٹ بنانے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔ یہ بہت اچھا طریقہ ہے مگر باہر کے ملکوں میں رائج ہے۔ ہمارے ہاں بھی باہر کے ملکوں کے معاشروں کو دیکھ کر اسی طریقہ کو وضع کیا گیا ہے۔مگر افسوس ہے کہ ہمارے ہاں اس ضابطہ کی پابندی نہیں کی جاتی۔ یہاں ہمارے عوام تو نرالی دنیا کے رہنے کے والے ہیں۔ غیر ملکوں میں تو جب کرائم سین کی پٹی کھینچ کر ہوا میں تان لی جاتی ہے تو عوام کے کسی فرد کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ اس کھنچی ہوئی باڑ کے اندر کوئی نہ آئے۔وہ جائے وقوعہ سے دور رہتے ہیں قریب جائیں گے مگر اس کرائم سین والی زرد پٹی کو کراس نہیں کریں گے۔ پولیس کو بھی ٹینشن نہیں ہوتی کہ کوئی اس کے اندر جائے گا۔مگر ہمارے ہاں تو اور ہی عالم ہے۔کوئی واقعہ ہو کوئی حادثہ ہو مگر کرائم سین والی پٹی ہو یا کوئی رسی سی کھینچ کر اس جگہ کو گھیر لیا جائے تاکہ ثبوت نہ مٹنے پائیں اور کھنچی ہوئی رسی کے اندر کوئی نہ آئے۔ بلکہ پولیس کے پیادوں کو دیکھ داکھ کر وہاں ہجوم کی صورت میں رسیوں کو ہاتھ سے اوپر کر کے نیچے سے جائے حادثہ کے اندر گھس جاتے ہیں۔ان کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ او رغور بھی نہیں کرتے کہ آخر یہ رسی کس ل ئے کھینچی ہوئی ہے۔اپنا مزے سے موبائل کیمرہ لے کر رسی کے نیچے سے جھک کر اندر جا کر ٹوٹی پھوٹی ہوئی گاڑی کے فوٹو کھینچ کر آگے وٹس ایپ پر بھیج رہے ہیں اور وٹس ایپ کے نیوز گروپ میں اولیت کا تاج پہننے کو تیار رہتے ہیں۔اس فخر کو حاصل کرنے کو کہ یہ پکچرپہلی بار فلاں گروپ نے بھیجی ہیں‘ موبائل کیمرہ اچھی چیز ہے۔مگر اس کا استعمال اگر مثبت انداز سے کیا جائے۔ جہاں کرائم سین والی زرد پٹی لگی ہو وہاں پٹی کوکراس نہیں کرنا۔مگر اس کا شعور کہاں سے آئے۔ہمیں تو اس کی سمجھ دلائی ہی نہیں گئی نہ کسی کورس کی کتاب میں یہ چھوٹی باتیں لکھی گئی ہیں اور نہ ہی ٹی وی کے کسی پروگرام میں اس کی طرف رغبت دلائی جاتی ہے۔یہ تو سارا معاملہ تربیت کے ساتھ ہے۔