اس بار جب وہ کٹ کر گرا تھا تو جیسے کلیجہ ہی کٹ گیا تھا اس کا ہمارا ساتھ سات سال سے تھاکیونکہ ہم اسی دورانیہ سے یہاں مقیم ہیں؛ساتھ والوں کی دیوارکے اس پار سے یہ درخت ہماری چھت پر بھی سایہ دے رہا تھا۔شہتوت کا درخت ابھی توت گرانے لگا تھا‘اتنے شہتوت جمع ہو جاتے کہ گھر میں آئے ہوئے مہمان خوب مزے لے کر کھاتے‘ زیادہ تر چھت اس میوہ کے ساتھ بھری رہتی تھی۔ان کو شاید لکڑی کی ضرورت تھی کیونکہ بڑا درخت تھا‘اس کو کاٹ کر اس سے عمارتی لکڑی کا بہت کام لیا جا سکتاتھا‘پھراس کا خس وخاشاک گھر کے چولہوں میں آگ جلانے کے بھی کام آ سکتا ہے‘یا پھر کہیں وہ گھرکے بڑے صحن میں کوئی نیا کمرہ ڈالتے ہوں گے مگر جانے کیوں انہوں نے یہ سفاکانہ اور غیر پسندیدہ فیصلہ کیا‘ ان کے گھرکے آنگن میں زمین کے اندر اس کی جڑیں بہت پختہ تھیں‘پھر جانے کب سے یہ اس زمین پر چھتری کی مانند سایہ کئے تھا۔وہ ہر سال اس درختوں کی کانٹ چھانٹ کرتے تھے کیونکہ شاخیں زیادہ ہو کر زمین کے ساتھ لگی ہوتی تھیں۔ تاحال کہ یہ الفاظ ضبطِ تحریر میں آ رہے ہیں گذشتہ تین گھنٹوں سے مشینی آرے کی بھاری بھرکم غوں غاں جاری ہے‘گاہے گاہے دھڑام کی آواز بھی آ جاتی ہے۔معلوم ہوتا ہے درخت بہت بڑا اور بھاری ہے اور اس کی شاخوں کے بعد اس کے تنے کی طر ف ہاتھ بڑھائے جائیں گے۔چلو سردی ہوتی تو کسی طرف سے کوئی خوشی کا اندازہ ہو جاتا کہ اب چونکہ درخت نہیں رہا سو دھوپ براہِ راست ہمارے گھر میں بھی ٹوٹ کر آئے گی مگر اب تو گرمی کا سٹارٹ ہے اور اس سمے میں درخت کے سایہ کا نہ رہنا کتنا برا ہے۔جب اس دھوپ میں آسمان کا یہ حال ہے تو پھر جون جولائی میں آسمان سے برستی آگ کی کیا شدت ہوگی‘مجھے تو اس بات سے بھی قلق ہو رہا ہے کہ درخت کا کٹ جانا ایک سانحہ سے کم اس لئے نہیں کہ اس پر گھنیری شاخیں تھیں پھر ان پر چڑیوں کے گھونسلے تھے جن میں گاہے بگاہے بچوں کی چوں چوں کی آوازیں بھی آتی رہتی تھیں‘ ان کو درخت کاٹنے کے وقت اپنے مطلب سے کام ہوتا ہے خواہ جو گھروندہ بھی تباہ ہو جائے‘اب چڑیاں کہاں سے چوں چوں کر کے سرِ شام ان گھنیری شاخوں میں اپنے اپنے نشیمن میں گھسنے کی کوشش کرنے کے لئے چہکاکریں گی‘ صبح دم گھڑی کے الارم رکھنے کی بھی ضرورت نہ تھی‘خود ہی چڑیاں علی الصبح اپنی چہچہاہٹ سے بتلا دیتیں کہ صبح ہوگئی ہے۔پھر اس سے بھی پہلے خوش نوا پرندے آکر ان شاخوں میں اپنی سریلی آواز جگاتے تھے‘ہمیں درخت کاٹنے کا کتنا شوق ہے ہم ان کی اہمیت سے آگاہ ہی نہیں کہ یہ ماحول کو کتنا خوبصورت بناتے ہیں۔چھایا دیتے ہیں‘دن کو بھی دھوپ کی تمازت کو شکست فاش دے ڈالتے ہیں۔درختو ں کے کاٹنے کے سانحہ پر مجید امجد کی نظم ”توسیعِ شہر“ ضرور دیکھیں‘ جو انہوں نے آج سے لگ بھگ اسی سال پہلے لکھی ہوگی کیونکہ ساٹھ سال گزار کروہ 1974ء میں فوت ہوئے تھے۔ اس وقت بھی ان کو درختوں کے کٹنے کا دکھ تھا جو ہمیں آج بھی اس 2023ء میں نہیں ہے‘جس درخت کا میں نے ذکر کیا اس کے کٹنے سے تو لگا کہ سر پر چھت ہی غائب ہو گئی۔کیونکہ یہ ساتھ والی دیوار کے اس پار سے ہوکر ہماری جانب بھی سایہ فگن تھا۔ میں نے درخت کاٹنے والے ساتھی سے یونہی باتوں باتوں میں پوچھا کہ آپ یہ درخت کیوں کاٹ رہے ہیں۔کیونکہ پہلے تو وہ دوسری چھت اوپرفالتو شاخیں کاٹ ڈالتے تھے مگر اب کے تو انہوں نے چند آدمی ساتھ ملا کراس کو جڑہی سے کاٹ ڈالا۔انہوں نے جواب میں کہا اس لئے کہ یہ درخت گرنے والا تھا یا تو آپ کی دیوار پر گرتا اور یا ہمارے صحن کے کسی کمرے کی چھت پر دھڑام سے آن رہتا‘ہمارے ہاں درخت بہت فراوانی سے کاٹے جاتے ہیں مگر جس تیزی سے کاٹے جاتے ہیں اس رفتار سے اگائے نہیں جاتے کیونکہ عام لوگ بس اتنا جانتے ہیں کہ درخت تو کاٹ لینے کی چیز ہے مگران کو یہ معلوم نہیں کہ یہ ماحول کے لئے کتنی فائدہ مند چیز ہے۔سبزہ کی اپنی اہمیت ہے سبزہ زاروں کی جدا شناخت ہے اورپھر پرندوں کے حوالے سے ان کا الگ سا معیار ہے‘پرندے تو وہیں آئیں گے جہاں درخت ہوں گے جہاں درخت ہی نہ ہوں وہا ں خوش آواز تو کیا عام سے پرندوں کا بھی کوئی کام نہیں۔مہمان آتے تھے تو شہتوت خود بخود گر کر ان کے لئے لذت ِ زبان کا وسیلہ بن رہے تھے‘ اوپر سے ہم نے بھی کہہ دیا آپ کوتوت کھلائیں گے مگر جیسے انہوں نے کہا اور ہم نے جواب دیا اگلے ہی لمحے دیوار کے اس پار بھاری بھرکم ہینڈ آرا مشین کی غوں غوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ ان کو شاید درخت کے کٹ جانے سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی الٹا خوشی ہوگی کہ ان کے سو کام نپٹ جائیں گے مگر ہمیں اس لئے دلی دکھ ہوا کہ ہم لوگ آہستہ آہستہ فطرت سے بہت دور جا رہے ہیں۔پھر فطرت سے دور جانا کوئی اچھی بات بھی تو نہیں۔ اب زمانہ اتنا بھی ترقی تو نہ کرے کہ آدمی آہستہ آہستہ اپنے اصل سے دور چلا جائے کہ پھر مڑکر واپس آنا چاہے تو نہ آ سکے۔کیونکہ اس راستے میں یوٹرن کوئی نہیں ہے پھر یہ راستہ بھی تو سیدھا تباہی کے دہانے پر لے جا کر روک دیتا ہے۔گویاآگے کھائی پیچھے سمندرنہ تو وہاں کے اور نہ ہی یہاں کے۔