دنیا بھر میں جنگوں اور تنازعات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ایک ملک ایسا بھی ہے جو اِس صورتحال سے متاثر نہیں اور نامساعد معاشی حالات کے باوجود ترقی کر رہا ہے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ’بنگلہ دیش‘ خطے کے سبھی ممالک سے فی الوقت بہتر ہے جہاں عوام کے لئے فراہم کردہ بنیادی سہولیات کا نظام منجمند نہیں بلکہ عالمی معاشی مشکلات کے باوجود ترقی کر رہا ہے اور بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی زیرقیادت گزشتہ پندرہ برس کی حکومتی کارکردگی مثالی ہے۔ بنگلہ دیش کا موازنہ دیگر ممالک سے کرنے پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر پائی جانے والی ’پیچیدہ مساوات‘ کا زیادہ اثر بھی دکھائی نہیں دیتا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ میں پہلی بار‘ عوام کی بنیادی صحت کی دیکھ بھال سے متعلق ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جو ’کمیونٹی بیسڈ پرائمری ہیلتھ کیئر: یونیورسل ہیلتھ سروسز کے اہداف‘ سے متعلق ایک جامع لائحہ عمل ہے اور اِس حکمت عملی کے تحت بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے نجی شعبے کے تعاون یعنی ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ کے ذریعے جو ’پرائمری ہیلتھ کیئر‘ متعارف کرایا گیا ہے اُس کی ورلڈ بینک نے تعریف کی ہے اور صحت عامہ کے اِس منفرد نظام اور اِس کی کامیابیوں کا کئی ممالک نے مطالعہ بھی کیا ہے۔ درحقیقت ہر ملک میں صحت عامہ کی دیکھ بھال کے لئے نت نئی اصلاحات متعارف ہوتی ہیں لیکن بنگلہ دیش نے سوچ سمجھ کر اور مستقل مزاجی سے صحت کے شعبے میں اصلاحات متعارف کروائیں اور اُن پر عمل درآمد بھی جاری رکھا۔ شیخ حسینہ کے اِس مثالی اقدام کو ورلڈ بینک نے ’شیخ حسینہ انیشی ایٹو‘ کا نام دیا ہے جس میں ’عوامی صحت عامہ‘ کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے اور عالمی صحت کی دیکھ بھال میں مساوات قائم کرنے کے لئے مضبوط عزم و کامیابی کی عکاسی ہوتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے عالمی بینک نے سال 2030ء تک بنگلہ دیش کی صحت عامہ میں امداد کرنے کی بھی منظوری دی ہے جو اہم سنگ میل ہے اور بنگلہ دیش کی مثال دنیا کے سامنے پیش کی جہاں ’کمیونٹی کلینکس‘ قائم کئے گئے ہیں اور اگر دیگر ممالک بھی اِس تصور پر کام کریں تو دنیا بھر میں اربوں افراد کی صحت کی دیکھ بھال بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے جس سے یونیورسل ہیلتھ سروسز اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف جیسی حکمت عملیوں پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔’کمیونٹی کلینک‘ بلاشبہ بنگلہ دیش کی ’بڑی کامیابی‘ ہے۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے 1998ء میں بنگلہ دیش میں اِس منفرد کوشش (کمیونٹی کلینک) پر مبنی صحت کے نظام کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد بنگلہ دیش کے تمام لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولیات (پرائمری ہیلتھ کیئر) کی فراہمی تھا۔ اس منصوبے نے ملک بھر میں نچلی سطح پر سرکاری پرائمری ہیلتھ کیئر کے فوائد کو لوگوں کی دہلیز تک پہنچا کر ’انقلاب‘ برپا کر دیا۔ شروع سے ہی اس اقدام پر وزیر اعظم کے ردعمل کو عوام کی اکثریت نے سراہا تاہم بنگلہ دیش نے اپنی اِس حکمت عملی کو عالمی سطح پر پہچان دلانے کے لئے بھی کام کیا اور وہ اِس میں کامیاب رہے۔ یہ کامیابی کسی بھی ملک کی حکومت اور عوام کے لئے باعث فخر ہے کہ دنیا اُس کی کارکردگی کو دلچسپی کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ واضح رہے کہ اِس وقت ’کمیونٹی کلینکس‘ نے بنگلہ دیش میں صحت کی دیکھ بھال بالخصوص پسماندہ طبقات کے علاج معالجے میں جو خاموش انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ اُس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو صحت کی معیاری سہولیات میسر ہیں۔ عالمی بینک کی حالیہ جائزہ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں بچوں کی شرح اموات میں اُنتیس فیصد کمی آئی ہے۔ اِسی طرح شرح پیدائش بھی کم ہو کر 2.3 فیصد رہ گئی ہے جبکہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کی شرح بڑھ کر پچپن فیصد ہو گئی ہے۔ پیدائش کے وقت کم وزن والے بچوں کی شرح کم ہو کر 33فیصد رہ گئی ہے یعنی اب بنگلہ دیش میں نومود بچوں کی اکثریت کم وزن نہیں ہوتی۔ زچگی کے دوران تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز 42 فیصد عوام کو میسر ہیں‘ادویات اور طریقوں پر 62 فیصد عمل درآمد ہو رہا ہے جس سے آبادی کی شرح کنٹرول میں ہے۔ خسرے سے بچاؤ کی ویکسی نیشن 86 فیصد عوام کو لگ چکی ہے الغرض وہ سبھی مسائل جو کبھی بنگلہ دیش میں صحت کے نظام کو متاثر کرتے تھے لیکن اب اِس کے شعبہ صحت کی بہتر کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور ایک عام آدمی کے معیار زندگی میں بڑے پیمانے پر بہتری آئی ہے۔ بنگلہ دیش میں صحت عامہ کی دیکھ بھال بھارت‘ پاکستان‘ نیپال اور خطے کے دیگر ممالک سے بہتر ہے اور ’کمیونٹی کلینک‘ ملک میں مجموعی صحت کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔