آندھی چلنے سے ماحول نا خوشگوار ہو جاتا ہے۔کہیں دھول سڑکوں کو چاٹتی پھر تی ہے۔کہیں گند گریل والے شاپر پورے رستوں میں حائل ہوکر سروں پہ اڑتے پھرتے ہیں۔آنکھوں میں مٹی پڑنے لگتی ہے۔راہ پر قدم اٹھیں توجاتے ہوئے ہنگامی طور پر ایک طرف کھڑے ہو کر آنکھیں میچ کر ہوا کے اس طوفان کے ٹھہراؤ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔مگر دوسری طرف موسم بھی تو خوشگوار ہو جاتا ہے۔یہ آج کل جو موسم کی شرارتیں ہیں ان کو سامنے رکھ کر جو تپش محسوس ہو تی ہے کہ اب گرمی آگئی اس پر بھی دھوکے میں نہ آئیے کیونکہ کسی بھی وقت تیز ہوا چلی اور پھر سے موسم میں ٹھنڈک محسوس ہونے لگتی ہے۔سرشام ہوا چلتی ہے تو اس میں ٹھنڈک کا احساس ہونے لگتا ہے کیونکہ آرپار دوسرے شہروں میں بارشیں ہو رہی ہیں تادمِ تحریر چوبیس گھنٹوں سے سوات میں دھیمی دھیمی بارش لگی تھی۔ملاکنڈ میں ہر سُو بادلوں کے ڈیرے ہیں اورپانی کی یہ مشکیں کہیں بھی برس جانے کو تیار پھر تی ہیں‘کہیں تو طوفان کی سی کیفیت ہے۔اتنی کہ درخت جڑوں ہی سے اکھڑ گئے ہیں۔اتنے پریشان کہ درخت ایک دوسرے گے گلے ملنے کے بجائے ایک دوسرے ٹکرارہے ہیں۔بجلی والوں کو تو موقع چاہئے۔ ذرا سی تیز ہوا چلی تو انہوں نے مین سوئچ آف کر دیئے اور اب سارا دن بجلی کے آنے کا خیال رہا کہ جانے اب آئے اور اب آ ئے مگر وہ نہیں آتی او رنہیں آتی‘جھکڑچلنے کابہانہ ڈھونڈ نکالتے ہیں مگر اس کے علاوہ بھی جب موسم گرم بھی ہوتو صبح اچانک بجلی جوں غائب ہوتی ہے تو پھر شام گئے کہیں آئی تو آئی ورنہ اندھیاروں میں بیٹھے رہو ”پہلے سے اگر پتا ہو تو بندہ کہیں کمپیوٹر کے کام کی تیاری کرکے فارغ ہو کر بیٹھ جائے۔ مگر ایسا ہونا اس لئے ممکن نہیں کہ بجلی کا یہ وا راچانک ہوتا ہے۔”غضب کیا تیرے وعدے پر اعتبار کیا۔تمام رات قیامت کا انتظار کیا“۔چلتے چلتے دوسرا شعر بھی سن لیں ”تجھے تو وعدہ ئ دیدار مجھ سے کرنا تھا۔ یہ کیا کہ جہاں کو امیدوارکیا“۔جب دو سن لئے تو ایک اور سہی”تری نگاہ کے تصور میں ہم نے اے قاتل۔لگا لگا کے گلے سے چھری کو پیار کیا“۔بجلی کے لئے اس کے ضرورت مند عاشقو ں کا بھی یہی رونا ہے۔موسم کی یہ کارستانیاں ابھی تک جاری ہیں۔ حالانکہ سردی کا موسم طویل بھی ہو توعام طور سے اکیس مئی سے گرمی کا سٹارٹ ہو جاتا ہے مگر اب کے تو لگتا ہے کہ اکیس جون بھی آکر گزر جائے گا اور گرمی میں تڑپا نہیں پائے گا‘خیر خدا کرے موسم کی یہ تابانی اور آنکھوں میں چبھنے والی روشنی ایسی ہی رہے جیسی اب کے موجودہ دنوں میں ہے۔بیٹھے بیٹھے گرمی کے تھپیڑے سہتے ہوئے اچانک مین گیٹ زور سے بجتا ہے جیسے کسی سپر سانک جہاز نے ہوا کی حد کو کراس کیا ہو اور فضا میں دھماکہ ہوا مگر ساتھ ہی کھلی کھڑکیاں بھی زور سے بجنے لگتی ہیں اور دروازے بھی کھڑکھڑانے لگتے ہیں۔ پھر تو ہوا وہ صورت مچاتی ہے کہ دیوار و در بجنے لگتے ہیں۔ایک طرف ماحول کی ناخوشگواری ماتھے لگتی ہے دوسری طرف موسم کی خوشگواری تحفہ میں ملتی ہے کیونکہ اس کے بعد پانی کی مشکیں جو سرِآسماں او ربدلیاں جو کئی چاند سرِ آسماں ہوتے ہیں ننھی ننھی بوندیں سروں پر ڈھلکانے لگتی ہیں۔اس کے بعد کہیں ایک آدھ چھینٹا پڑجائے تو چلو چوبیس گھنٹوں کی گزراں بخوشی ہو جاتی ہے۔ملاکنڈ طوطاکان کی اور سے بھی موسم کی ٹھنڈی البیلی رُت کے سر گرم وٹس ایپ کے ایس ایم ایس دلوں کو موسم کی نیرنگی سے آشنا کر رہے ہیں بلکہ شمالی سمت کو تو جو بھی اپنے ہیں سب پیارے موسم کے اچانک بدلنے کی نوید سنا رہے ہیں اور موسم کی مزید رپورٹس بھی دیتے ہیں۔موسم کی یہ شرارتیں جاری ہیں۔پھر ساری دنیا والے پریشان حال کہ موسموں کے ٹائم میں یہ رد وبدل ہماری زمین کے گلوب کے لئے کوئی اچھی بات نہیں۔یہ جو سیلاب آیا تھا یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے کارن تھا جو اپنے ساتھ بہت کچھ کھینچ تان کر لے گیا۔بلکہ بعض گھروں میں تو ہلکا ٹھنڈا پانی پیا جانے لگا ہے مگر اکثرکے ہاں ایسا نہیں۔ وہ اپنے آپ کو ٹھنڈے پانی کا عادی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ابھی جون جولائی اور اگست کے ماہ پڑے ہیں اتنا جلدی ٹھنڈا پانی پینے کا عادی نہیں ہونا چاہئے وگرنہ جون میں تو برف کی طلب بہت جلدی اور شدت سے ستانے لگے گی اس بار کی آندھیوں نے تو درختوں کویوں جھڑکا اور جھنجھوڑا کہ بعض شہریوں کو خوف ہوا کہ درخت ابھی گرے اور ابھی گرے۔کہیں آبادیوں میں بجلی کی تاروں کے قریب درخت نشے میں یوں جھوم رہے تھے جیسے بد مست ہاتھی جھومتا جھامتا دور سے آتا ہو اور راستے میں جو رکاوٹ آئے اس کو اپنے سر سے دھکا دے کر زمیں بوس کر دے‘ بجلی والے اس سے جتنا فائدہ دینا ہو دیتے ہیں مگر اضافی طور پر چار پانچ گھنٹے اور لگادیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں جب بذریعہ فون اطمینان ہوکہ کسی علاقے میں گیارہ ہزار کی بجلی تاریں وغیرہ نہیں گریں تو ہم لائٹ بحال کر دیں گے۔ خیر وہ جانیں اور ان کی بات جانے۔ایک راستے میں گیارہ کے وی تار پر درخت گرا تھا۔پھر ایک گھنٹہ اس پر کام ہوتا رہااور ایک گھنٹہ کے بعد جا کر بجلی بحال ہوئی۔ دوسری طرف بجلی کے خوف کی فضا دگناہوئی جاتی ہے۔آئے دن اخبارمیں بجلی کے نرخ بڑھائے جانے کی اطلاعات آتی ہیں۔اب پٹرول عالمی مارکیٹ میں مہنگاہوتو چلو سمجھ آتا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی تیل مہنگاہو جائے گا۔ اس پر دی جانے والی سبسڈی بھی تو ضبط کر لی گئی ہے اور اس پر ایک اور کوڑا یہ کہ لیوی بھی بڑھا دی گئی ہے۔یعنی روپے کی چیز سو روپے میں ٹیکس کی ناجائز فکسنگ سے مہنگی مل رہی ہے مگر بجلی تو عالمی مارکیٹ سے نہیں آتی یہ تو ہمارے اپنے دریاؤں سے آتی ہے‘اس کو مہنگا کرنے کی کیا عجیب حکمت ان کو سوجھی ہے مگر یہ بجلی والے کانوں کے کچے ہیں‘ان کو عالمی مالیاتی ادارے کسی چیز کے مہنگا کرنے کو کہہ دیں تو انہوں نے لازمی ان کی بات ماننا ہوگی وگرنہ قرض کی قسط ادا کرنے کے لئے بھی اربوں ڈالر کا اور قرضہ جو ملنا تھا وہ نہیں ملے گا۔