نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی (این اے سی) کے حالیہ اجلاس میں ’جی ڈی پی‘ کی شرح نمو سے متعلق عبوری اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ رواں مالی سال گھریلو صنعتوں اور بالخصوص کاروباری اداروں کے لئے مشکلات کا مجموعہ ہے اور قومی پیداوار اور قومی آمدنی زیادہ ہونے کی بجائے سکڑ رہی ہے۔ اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ اعداد و شمار کو حتمی شکل دینے تک یہ قومی ترقی و پیداوار کی شرح نمو ’منفی‘ ہو جائے۔ یہ صورتحال اِس بات کی یاد دہانی کے طور پر سامنے آئی ہے کہ اگرچہ ہم میں سے زیادہ تر شہری معاشی صورتحال سے پریشان ہیں لیکن اِس پریشانی سے نکلنے کے لئے ’زرعی معیشت‘ کی بحالی کو خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی جوگزشتہ برس آئے مون سون بارشوں کے نتیجے میں تباہ کن سیلاب کے اثرات سے تاحال (سات ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی) متاثر ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی بھی تصدیق کر رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت ازخود اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو گی اور نہ ہی اِسے بحال کرنے کے لئے بیرونی قرضوں کا مزید انتظار کرنا چاہئے بلکہ قومی وسائل کو ترقی دے کر اور اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلا کر بہت سارے مسائل کا حل ممکن ہے۔ درآمدات میں کمی لا کر معاشی بحالی کی کوشش سے معیشت کے تقریباً ہر شعبے کو نقصان پہنچا ہے۔ صنعتی نمو منفی سطح (یعنی قریب تین فیصد منفی) میں چلی گئی ہے اور خدمات کے شعبے کی نمو کو ایک فیصد سے بھی کم پوائنٹس (0.86فیصد) ملے ہیں۔ اِس خراب معاشی صورتحال کی ذمہ داری بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی طرف سے قرض دینے میں تاخیر کو قرار دیا جا رہا ہے جبکہ ضرورت یہ ہے کہ پاکستان اپنے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی تشکیل دے۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی بحالی ممکن نہیں ہوگی۔ جب تک ملک کا سیاسی ماحول کشیدہ رہے گا اُس وقت تک معیشت بھی غیریقینی کا سامنا کرتی رہے گی پاکستان کی معیشت ایک بندگلی میں پہنچ کر رک گئی ہے جہاں آگے اور پیچھے تاریکی ہے۔ اِس معاشی سست روی سے نکلنے کیلئے جس سطح اور جس صورت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اُس میں مزید غفلت کسی بھی سیاسی فریق کے حق میں نہیں۔ وقت ہے کہ معاشی بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور اِس سلسلے میں جس پہلے تصور کی اصلاح ضروری ہے وہ اِس بات کا احساس ہونا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو قرض کے گرداب سے نکالا جائے۔ قومی ترقی سے متعلق گمراہ کن اعدادوشمار کی حقیقت بھی عوام پر عیاں ہے جیسا کہ پاکستان تعلیم کے شعبے پر قومی آمدنی کا قریب ساڑھے دس فیصد خرچ کر رہا ہے لیکن یہ رقم ناکافی ہے اور دوسری اہم بات اِس قدر بڑی رقم کا بڑا حصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں‘ پینشن اور دیگر مراعات کی نذر ہو رہا ہے! وقت ہے کہ سرکاری اِداروں کے مالیاتی امور ہی کا نہیں بلکہ اِن کی کارکردگی کا بھی احتساب کیا جائے۔ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال کے تناظر میں‘ متاثر کن اعداد و شمار پیش کرنے کی بجائے اگر سرکاری اداروں میں پائی جانے والی مالی و انتظامی بے قاعدگیوں کی اصلاح کی جائے تب بھی مالی وسائل کی بچت ممکن ہے اور شاید ایسا کرنے سے مجموعی طور پر منفی شرح نمو کو مثبت میں تبدیل کیا جا سکے۔ توجہ طلب ہے کہ بدحال معیشت کا خمیازہ عام آدمی (ہم عوام) کو اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان کی معیشت سے متعلق جو اعدادوشمار جاری کئے گئے ہیں اُن میں غربت و بے روزگاری کا ذکر نہیں ملتا‘یہ ترقی کی ایک مایوس کن صورتحال کی عکاسی کر رہی ہے۔ بڑھتی ہوئے افراط زر‘ بے روزگاری اور قوت خرید میں کمی کی وجہ سے معاشی بوجھ کئی گنا بڑھ چکا ہے اور اِس بوجھ کو کم کرنے کیلئے سوچ و نظریات کے ساتھ طور طریقوں کی بھی اصلاح کرنی ہو گی جس کیلئے حسب وسائل اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے۔