تھائی لینڈ میں چودہ مئی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں جمہوریت نواز مو فارورڈ پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے برسر اقتدار جماعتوں کو شکست دے دی ہے۔ تاہم ابھی تک درکار اکثریت حاصل نہیں اور انہیں حکومت بنانے میں چند رکاوٹیں درپیش ہیں۔2014 کی فوجی بغاوت کے بعد فوج کی حمایت سے برسر اقتدار قدامت پسند پارٹیوں کے مقابلے میں حزب اختلاف کی موو فارورڈ پارٹی اور فیو تھائی پارٹی نے انتخابات میں غلبہ حاصل کیا۔ مو فارورڈ پارٹی نے ڈالے گئے انتالیس ملین ووٹوں میں سے چودہ اور پھیو تھائی پارٹی نے گیارہ ملین ووٹ حاصل کیے۔ملکی سیاست میں فوج کی مداخلت کی مخالف موو فارورڈ پارٹی اپنے دیگر سات ہم خیال جماعتوں کے ساتھ حکومت بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔ مو فارورڈ پارٹی کے سربراہ پیتا لمجاروینرت وزیر اعظم بننے کے خواہاں ہیں لیکن انہیں نصف سے زیادہ مشترکہ ایوان زیریں اور ایوان بالا سے مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں ایک چیلنج کا سامنا ہے۔ایم ایف پی نے تھائی پارلیمنٹ میں سات دیگر جماعتوں کے ساتھ ملک کے مستقبل کو سنوارنے کےلئے تئیس نکات پر مشتمل مفاہمت کی ایک مشترکہ یادداشت پر دستخط کر دئیے ہیں۔ مفاہمت کی مشترکہ یادداشت میں جمہوریت کی بحالی، نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا، اصلاحات، معیشت کی بحالی اور جبری مشقت کا خاتمہ شامل ہے۔ معاہدے میں اجارہ داریوں کے خاتمے، تمام صنعتوں میں تجارت میں منصفانہ مسابقت کی حمایت کی بات بھی کی گئی ہے۔ معاہدے کے مطابق اتحاد فلاح و بہبود اور تعلیم میں اصلاحات، ایک متوازن خارجہ پالیسی اختیار کرنے اور بھنگ کے استعمال پر قابو پانے کےلئے اس کی توثیق والے قوانین پر نظرثانی کرے گا، جس کی گزشتہ سال اجازت دی گئی تھی۔تھائی لینڈ میں بادشاہت موجود ہے اور مقبول بھی ہے ۔ ایک قانون کے تحت بادشاہت پر تنقید کرنے والوں کو سخت سزا ملتی ہے۔اسے تبدیل کرنا اس کی انتخابی مہم میں ایم ایف پی کا وعدہ تھا اور اسی وجہ سے نوجوان طبقہ میں یہ مقبول ہوئی تاہم مفاہمت میں یہ نکتہ شامل نہیں۔ایم ایف پی کے کئی اتحادی جماعتیں پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ وہ اس لیز میجسٹی قانون کو تبدیل کرنے کی حمایت نہیں کریں گی تاہم ایم ایف پی کے رہنما اور وزیر اعظم کے عہدے کے ممکنہ امیدوار پیتا لمجاروینرت کا اصرار ہے کہ وقت آنے پر ان کی پارٹی نئی قانون سازی کرے گی۔ابھی انتخابات کے نتائج کا سرکاری اعلان نہیں ہوا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹوں کے نتائج کی باضابطہ تصدیق کے فورا ًبعد وزیر اعظم کے لئے ووٹنگ جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں متوقع ہے۔مبصرین کے مطابق دو ماہ کے عرصے میں، جب ایوان کے سپیکر اور وزیر اعظم کے لئے ووٹنگ ہو گی، ہم ممکنہ طور پر ووٹنگ کے کئی راﺅنڈ دیکھ سکتے ہیں جب تک کوئی ایک امیدوار کم سے کم درکار 376 ووٹ حاصل نہیں کرلیتا اور آئین کے مطابق اس عمل کےلئے وقت کی حد مقرر نہیں ہے۔غیر سرکاری نتائج کے مطابق حزب اختلاف کی جمہوریت نواز جماعتوں نے یوں تو زبردست کامیابی حاصل کی ہے مگر ان کی نشستیں حکومت کےلئے درکار 376 نشستوں سے کم ہیں۔ ایم ایف پی نے 152 انفرادی طور پر نشستیں جیتی ہیں جبکہ آٹھ جماعتی اتحاد جس کا وہ حصہ ہے، نے مشترکہ طور پر 314 نشستیں جیت لی ہیں۔ اس اتحاد کو حکومت میں آنے سے روکا جا رہا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ شاید اقتدار میں نہ آسکے۔ یاد رہے تھائی لینڈ کے پارلیمان کے کل 750 ارکان ہیں جن میں 250 سینیٹرز بھی شامل ہیں۔ نتائج کے سرکاری اعلان کے بعد پانچ سو ارکان والے سینیٹ میں وزیر اعظم کے انتخاب کا عمل شروع ہوگا۔ پیتا کو سینیٹ پر قابو پانے کے لئے 500 رکنی ایوان نمائندگان سے 376 ووٹ درکار ہیں۔ اب تک اس کے پاس صرف 314 ہیں۔دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی دائیں بازو کی پھیو پارٹی ہے جس نے 141 نشستیں جیتی ہیں۔ یہ ایم ایف پی کی سب سے بڑی اتحادی ہے۔ انتخابات سے پہلے اس کی کامیابی کے امکانات ظاہر کیے جارہے تھے۔ اسے سینیٹ میں قدامت پسندوں اوروفاداروں کے لیے زیادہ پرکشش سمجھا جاتا ہے۔ امکان ظاہر لیا جارہا ہے کہ اگر ایم ایف پی اپنا اتحاد نہ بنا سکی تو پھر یہ اپنا اتحاد بناکر حکومت قائم کرسکتی ہے۔ انتخابی نتائج تھائی لینڈ میں وقت کی تبدیلی کا اشارہ دیتے ہیں۔ موو فارورڈ بہت مقبول ہو گئی ہے اور مقابلے میں حمایت یافتہ پارٹیاں عوامی حمایت سے محروم ہوگئی ہیں۔پیتا تھائی سیاست پر مخصوص گرفت کو ختم کرنے، بادشاہت پر تنقید کی اجازت دینے، جمہوریت کی طرف واپسی اور مضبوط خارجہ پالیسی اختیار کرنے کے وعدے کرتا رہا ہے۔انتخابی مہم کے دوران ایم ایف پی نے خود کو ادارہ جاتی اصلاحات اور سماجی پالیسیوں کے ایک ترقی پسند پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا جس نے پارٹی کو نوجوان نسل کے لئے پرکشش بنا دیا جو اشرافیہ اور ان کی حمایت یافتہ بادشاہت سے مطمئن نہیں۔ ساتھ ہی اسے محنت کش طبقے کی وسیع حمایت بھی ملی جو بدعنوانی، جبر اور مخصوص طرز حکمرانی کے خاتمے کے خواہاں ہیں۔انتخابات میں ووٹنگ کی شرح ستر فیصد رہی جو بہت زیادہ ہے۔ ان میں شرکت کے لئے عوام کا جوش و خروش بے مثال تھا۔ تھائی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے ووٹروں کو متحرک کرنے اور مسابقتی انتخابات کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کیاایم ایف پی فیوچر فارورڈ پارٹی کے بعد قائم ہوءجسے تھائی آئینی عدالت نے فروری 2020 میں تحلیل کر دیا تھا۔ اسے مزید عوامی حمایت حاصل کرنی ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ حکومتی اداروں کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔یاد رہے 2019 کے عام انتخابات میں پھیو پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں مگر اس کے باوجود وہ حکومت بنانے میں ناکام رہی او مد مقابل گروہ نے حکومت قائم کر لی تھی۔ اب بھی تھائی شہری اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ آیا ان کی منتخب کردہ پارٹی کو قیادت کرنے دی جائے گی یا اس کا راستہ روکا جائے گا۔تھائی لینڈ کے الیکشن کمیشن میں پیتا پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ یہ ظاہر کرنے میں ناکام رہا کہ وہ ایک میڈیا کمپنی کے حصص کا مالک ہے جو اسے اپنے والد سے وراثت میں ملی ہے۔ پیتا کے مطابق اس نے اطلاع دی ہوئی ہے۔