ہم ایک دوسرے کے قریب قریب بیٹھ کر بھی کتنے دور ہوتے ہیں‘میں وٹس ایپ کی بات کر رہا ہوں۔ موبائل کی کارستانیوں کا تذکرہ ہے مگر ایسا بھی ہے کہ اسی ویب کی وجہ سے ہم جو ایک دوسرے سے اتنا دور ہوتے ہیں کہ بیچ میں سات سمندر حائل ہوں مگر ایک دوجے کے اتنے قریب ہوجاتے ہیں کہ صرف موبائل سکرین میں سے ہاتھ نکال کر ملانے کی کسر باقی رہ جاتی ہے پھر وٹس ایپ کو چھوڑ کر میسنجر کی الگ دنیا ہے‘جو لوگ میسنجر کے عادی ہیں ان کو وٹس ایپ مزہ نہیں دیتا او رجو وٹس ایپ کے چُنگل میں از خود گرفتاری دیتے ہیں وہ دوسری کسی ویب سائٹ کو وقت نہیں دے پاتے‘میں کہتا ہوں دنیا بہت مصروف ہو گئی ہے پھر خاص طور پر ہمارا معاشرہ تو بہت زیادہ مصروفیت کا شکار ہو چکا ہے کیونکہ جب سے شماریات والوں نے ہماری آبادی میں پہلے سے زیادہ رش کا اندازہ لگایا ہے‘یہ بھی ٹینشن لگی ہے کہ ہم لوگ اب پہلے سے زیادہ مصروف ہیں‘میں جان کر مصروفیت کا لفظ استعمال کر رہا ہوں تاکہ برانہ لگوں اور زبان دانی کے حوالے سے مجھ پرکوئی الزام بھی نہ آئے‘ہمارا تو اور کوئی کام کاج ہے نہیں۔ بیروزگاری میں آبادی کابڑھ جانا کوئی اچھا اشارہ نہیں ہے مگر یہ لوگ اگر موبائل فون کے ساتھ بھی نہ کھیلیں تو پھر کیا کریں‘جو دور تھے ان کو وٹس ایپ نے اتنا قریب کر دیا ہے کہ لگتا ہے وہ اقرباء اور یار ساتھ والے کمرے میں آن کر رہائش اختیار کر چکے ہیں‘پھر جو قریب تھے ایک کمرے کے مکین تھے وہ قریب ہو کر بھی اتنے دور جاچکے ہیں کہ اب شاید ان کوتقدیر ہی قریب لائے تو لائے وگرنہ تو وہ اور دور جاتے ہوئے صاف نظر آتے ہیں‘تقریب جاری تھی مگر جب تلک ”تقریب تیری یاد کی کمرے میں بپا تھی“ اس وقت تو سب ایک دوسرے سے گھل مل گئے چائے کا دور چلا اور بسکٹ دانتوں تلے کترے گئے‘گھریلو تقریب کے اس پندرہ بیس منٹ کے دورانیے میں سب نے ایک دوسرے سے گپ شپ کا ڈول ڈالا‘حال احوال پوچھے گئے‘ہنسی مذاق اور ٹھٹول ہوئے ایک کے پیچھے بات ہوئی دوسرے کے کان کترے کسی نے گل کتر لئے کسی نے خاندانی رازو نیاز سے فخریہ طور پر پردہ اٹھا کر دوسرے کو حیران کردینے کو بہتر جانا‘ایک گہما گہمی اور ناؤ نوش کا ماحول تھا ہاؤ ہو کا عالم تھا‘سیلفیاں بنیں اور قالین پر جوتوں سمیت آنے والے ٹیڑھے میڑھے ہو کر اس فیملی فنکشن میں سیلفیوں سے دل بہلاتے رہے‘موبائل کے سپیکر پر گانوں کی جھنکار نے بھی ایک الگ پر سرور فضا تخلیق کر ڈالی تھی۔ یہی ماحول تا دیر رہا اور ساتھ ساتھ اس بڑے کمرے کے کونوں کھدروں میں کبھی توکولڈ ڈرنک اور کسی کے ہاتھ میں چائے کی پیالی چکن سینڈ وچ کے ساتھ وہ بھی اچھے والی بیکری کی کنفیکشری۔غرض ایک چل چلاؤ کا ماحول تھا مگر آغاز کوئی بھی ہو اس کا ایک درمیان ہوتا ہے اور پھر ا سی کا ایک اختتام بھی ہوتا ہے۔اتنی لمبی تمہید اس لئے تھی کہ مجھے ا س ماحول کی منظر نگاری کر کے کام کی یہ بات بتلانا ہے کہ یہی لوگ پھر آخر میں اسی کمرے کے صوفوں میں دھنس گئے اور کچھ کرسیوں پر براجمان ہوگئے کچھ نے باہر جانے والے دروازے کی راہ لی جو اپنے تھے او رجو اپنے اپنے سے تھے وہ تو وہیں رہ گئے۔ انہوں نے رات کا کھانا بھی یہیں تناول فرمانا تھا‘ سو ان میں سے کچھ تو زمین پر بچھے گاؤ تکیوں پر گر گئے‘ انہوں نے اپنی اپنی جیب سے موبائل نکالے اور اپنی آنکھوں کو رنگین سکرین کی رعنائیوں کے پاس گروی رکھ لیا‘ کوئی تو وٹس ایپ پر سوال کررہا ہے اورکوئی لندن سے آیا ہوا جواب سن رہاہے‘رات دن کے فاصلے کے ٹائم پر واقع کینیڈا اور امریکہ کے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ چٹ چیٹ ہو رہی ہے۔غرض ایک عجیب سا ماحول تھا‘ سب ایک دوسرے کے پاس پاس اور قریب قریب بیٹھے تھے مگروہ آپس میں ایک دوسرے سے اتنا ہی دور تھے جتنا یہاں سے خودافریقہ او رجرمنی دور ہیں‘موبائل تو میرے ہاتھ میں بھی تھا‘پھر میں کون سے اجنبی سیارہ کی مخلوق ہوں مگر ناصر کاظمی کا شعر یاد آیا”ناصراس دیار میں۔ کتنا اجنبی ہے تو“لیکن خو دکو اجنبی ضرور محسوس کیا‘ ایک بار سہی مگر یہ کیفیت اس وقت تک رہی جب تلک میں اس تقریب کے باقی بچ جانے والے مہمانانِ گرامی کی حرکات و سکنات پرغور کر رہاتھا مگر تھوڑی دیر بعد جب مجھے ویڈیو کال آئی تومیں نے اتناکیا کہ کمرے سے باہر نکل کر صحن میں آگیا کہ کمرے کے اندربیٹھے ہوئے لوگ میری وجہ سے ڈسٹرب نہ ہوں۔