کووڈ انیس سے لے کر ہیضے تک کی وباں نے عالمی ہنگامی صورت حال میں عالمی ادارہ صحت کے وسائل پر دبا مزید بڑھا دیا ہے۔ اب اس ادارے کو انٹرنیشنل ہیلتھ ایمرجنسی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے پچاس فیصد زیادہ بجٹ درکار ہے۔عالمی ادارہ صحت کے لیے اس نئی تشویش کی وجہ بار بار سامنے آنے والے انٹرنیشنل ہیلتھ ایمرجنسی کے واقعات ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک سینیئر مشیرکا کہنا ہے کہ ان عالمی یا بین الاقوامی وباں کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) صحت عامہ کے شعبے میں کئی مرتبہ جن ہنگامی حالات کا اعلان کرنے پر مجبور ہوا، ان کے باعث خود اس ادارے پر پڑنے والا بوجھ اور زیادہ ہو گیا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس اداریکے ہنگامی ردعمل کا جائزہ لینے والی کمیٹی کے سربراہ پروفیسر ولید عمار نے کہا کہ دنیا بھر صحت کی صورت حال کے باعث ڈبلیو ایچ او سے مسلسل بڑھتے ہوئے مطالبات کے نتیجے میں دستیاب فنڈز اور عملے کے مابین خلیج اور وسیع ہوتی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا، ''پروگرام بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے کیونکہ مطالبات صرف ہنگامی حالات کی کثرت اور پیچیدگی کے ساتھ بڑھے ہیں۔''اس کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال مارچ تک ڈبلیو ایچ او صحت کی 53 اعلی سطحی ایمرجنسیز کا جواب دے رہا تھا۔ ان میں کووڈ انیس، ہیضہ اور ماربرگ وائرس پھیلنے جیسی وبائی بیماریاں بھی شامل تھیں۔ ان کے علاوہ اس عالمی ادارے کو ترکی اور شام میں زلزلے اور پاکستان میں تباہ کن سیلابوں جیسے انسانی بنیادوں پر ہنگامی حالات کا سامنا بھی رہا۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں سیلابوں اور طوفانوں جیسے قدرتی واقعات کی تعداد اور تواتر میں بھی اضافہ کر رہی ہیں اور ان سب کے نتائج سے صحت کا شعبہ بھی متاثر ہوتا ہے۔دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ 2022-2023 کے لیے ڈبلیو ایچ او کا ایمرجنسی پروگرام اپنے بنیادی بجٹ کا صرف 53 فیصد کے قریب حصہ ہی حاصل کر سکا ہے۔ اسی لیے اس حوالے سے رپورٹ میں مزید مستحکم فنڈنگ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ڈبلیو ایچ او اور اس کے رکن ممالک اس بات کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ وہ صحت کی کسی بھی ہنگامی صورت حال کے ساتھ کس طرح نمٹیں اور ڈبلیو ایچ او کی مالی اعانت میں اضافے کے مزید کون کون سے طریقے استعمال کریں۔ اس ضمن میں پیر 22 مئی کو رکن ممالک نے ایک نیا بجٹ بھی منظور کیا، جس میں ان کی طرف سے لازمی مالی ادائیگیوں میں 20 فیصد اضافہ بھی شامل تھا۔اس رپورٹ میں ڈبلیو ایچ او سے اپنی کارکردگی میں مزید بہتری لانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔یورپی ماحولیاتی ایجنسی کے مطابق بچے ڈبلیو ایچ او کے مقرر کردہ پیمانے سے کہیں زیادہ فضائی آلودگی کی سطح میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس رپورٹ میں برطانیہ اور روس جیسے آلودگی پھیلانے والے ممالک کو شامل نہیں کیا گیا۔یورپ کی ماحولیاتی ایجنسی (ای ای اے کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں ہر برس فضائی آلودگی کی وجہ سے بارہ سو سے زیادہ بچوں اور نو عمر جوانوں کی موت ہو جاتی ہے۔کوپن ہیگن میں قائم ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا، بچے فضائی آلودگی کا زیادہ شکار ہو تے ہیں۔رپورٹ کے مطابق زیادہ فضائی آلودگی دمہ کی بیماری کی بلند شرح کا اہم سبب بنتی ہے، جس سے یورپ میں نو فیصد بچے اور نوجوان پہلے سے ہی متاثر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ آلودگی پھیپھڑوں کی کارکردگی متاثر کونے کے ساتھ ساتھ سانس کے انفیکشن اور الرجی میں اضافے کا بھی سبب ہے۔اس تحقیق میں یورپی یونین کے 27 ارکان سمیت 30 ممالک کا جائزہ لیا گیا، تاہم اس میں روس، یوکرین اور برطانیہ جیسے بڑے صنعتی ممالک کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات کی مجموعی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہیں۔ایجنسی کا یہ بھی کہنا ہے کہ نقل و حمل، صنعت اور حرارتی نظام سے جو گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہو رہا ہے، اسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔یورپ کی ماحولیاتی ایجنسی (ای ای اے) کا کہنا ہے کہ بہت سے یورپی ممالک خاص طور پر وسط مشرقی یورپ اور اٹلی میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی جانب سے تجویز کردہ رہنما خطوط سے کافی زیادہ سطح پر رہتی ہے۔ ایجنسی کا اندازہ ہے کہ جن ممالک میں شہری آبادی کا سروے کیا گیا، ان میں 97 فیصد حصے فضائی آلودگی سے متاثر پائے گئے، جو گزشتہ برس ڈبلیو ایچ او کے مقرر کردہ پیمانے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ایجنسی کا یہ بھی کہنا ہے کہ نقل و حمل، صنعت اور حرارتی نظام سے جو گرین ہاس گیسز کا اخراج ہو رہا ہے، اسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔اس رپورٹ میں مختصر مدت میں بچوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اسکولوں کے آس پاس سبزہ زار اور گرین زون کو وسعت دینے کا عملی حل تجویز کیا گیا ہے۔ رپورت کے مطابق اس حل سے ہوا کے معیار میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔