گزشتہ ہفتے جب ایک جانب پاکستان اپنے اندرونی معاشی اور سیاسی بحران کی وجہ سے شدید دباؤ اور عالمی تنہائی کاشکار رہاتودوسری جانب دنیاکی نگاہیں براعظم ایشیا کے تین خطوں میں تقریباً ایک ساتھ وقوع پذیر ہونیوالے تین اہم سربراہی اجلاسوں پرمرکوزر ہیں جن میں بین الاقوامی اور علاقائی امن، استحکام اور ترقی کو متاثر کرنیوالے مشکل چیلنجوں سے نمٹنے کے طریقوں پر گفتگو کی گئی۔ ایک اجلاس عرب لیگ کا تھاجو سعودی عر ب کے شہرجدہ میں ہوا،دوسرا اجلاس جاپان کے شہرہیروشیما میں‘جبکہ اسی دوران پانچ وسط ایشیائی ممالک کا ایک تیسرا اہم اجلاس چینی صدر شی جن پنگ کی میزبانی میں ژیان شہر میں منعقد ہوا۔ ان تینوں اجلاسوں سے یہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اس وقت جب ہم اندرونی محاذ آرائی کے شکار ہیں دنیا خاص کر وہ ممالک جو گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی دباؤ اور تنہائیوں کے شکار تھے وہ کس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔عرب لیگ کے جدہ سربراہی اجلاس نے جہاں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے علاقائی استحکام اور اقتصادی انضمام کی انتھک کوششوں کے باعث ان کے قد کاٹھ کو مزید بلند کیا ہے وہاں اس اجلاس کی قابل توجہ بات اس اجلاس میں دو رہنماؤں شام کے صدر بشار الاسد اور صدر ولادیمیر زیلنسکی کی موجودگی تھی۔بشارالاسد نے 12 سال سے زیادہ کے وقفے کے بعد عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی جب سے 2011ء میں عرب لیگ نے شام کو ملک میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے معطل کر دیا تھا۔ شام کی عرب مرکزی دھارے میں واپسی عرب بہار کے منفی اثرات سے نکلنے کی کوششوں کی بھی نشاندہی کرتی ہے جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے وسیع تر خطے کے بہت سے مستحکم ممالک میں خلل پڑاتھا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کی حمایت سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان علاقائی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور عربوں کے درمیان تقسیم کو ختم کرنے میں جوکرداراداکررہے ہیں اس سے نہ صرف عرب دنیا بلکہ اس کے آس پاس کے وسیع خطے میں بھی دوررس تبدیلیوں کے امکانات ہیں۔ اس ضمن میں جاری سعودی ایران تعلقات کے نتیجے میں جہاں شام کی عرب لیگ میں واپسی ممکن ہوئی ہے وہاں اس پیش رفت کے نتیجے میں یمن میں کئی سالوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور علاقائی امن کو مضبوط بنانے کی امیدیں بھی قائم ہوئی ہیں۔ عرب لیگ سربراہ اجلاس میں ولی عہد کا پیغام بلند اور واضح تھا۔ ان کاکہنا تھا کہ ہم مشرق اور مغرب کے دوست ممالک کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم امن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں‘ ہم اپنے خطے کو تنازعات کی آماجگاہ میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے،ہمارے لئے ماضی کا صفحہ پلٹنے کے لئے کافی ہے کہ ہم ان تنازعات کے دردناک سالوں کو یاد رکھیں جن سے خطے کے لوگ دوچار ہوئے اور جن کی وجہ سے ترقی کا سفر رک گیاتھا۔اس اجلاس کی ایک اوراہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب دنیا کے سامنے ایک ثالث کے طور پر ابھرا ہے اس اجلاس میں زیلنسکی کی شرکت نے حساس علاقائی تنازعات میں ثالثی کے لئے سعودی عرب کی دستیابی کا اشارہ دیاجس کا ثبوت زیلنسکی کا یوکرین روس جنگ کے خاتمے کے لئے ثالثی کی سعودی پیشکش کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی رہائی کے لئے گزشتہ سال ولی عہد کی کوششوں کا شکریہ ادا کرناتھا۔ دوسری جانب روس نے لیبیا، سوڈان اور یمن میں تنازعات کے حل کی حمایت میں عرب لیگ کے ساتھ یکجہتی کا پیغام بھیج کر امن کی کوششوں میں سعودی عرب کے فعال تعاون کو بھی تسلیم کیاہے جسے سعودی سفارتکاری کی کامیابی سے تعبیرکیاجارہاہے۔ جاپان کی میزبانی میں جی سیون سربراہی اجلاس کا لہجہ اور انداز مختلف تھا۔ اس میں روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کو مزید ہتھیاروں کی فراہمی، روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جب کہ اس اجلاس میں سلامتی اور معیشت میں چین کا مقابلہ کرنے کے طریقوں پربھی غور کیا گیا‘واضح رہے کہ جی سیون سربراہ اجلاس میں رکن ممالک جاپان، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے علاوہ آٹھ مہمان ممالک آسٹریلیا، ہندوستان، برازیل، جنوبی کوریا، کوموروس، جزائر کوک اور یورپی یونین نے شرکت کی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اجلاس میں جہاں یوکرین کا مسئلہ سرفہرست رہاوہاں یوکرینی صدر زیلنسکی عرب لیگ کے اجلاس سے سیدھے اس اجلا س میں شرکت کے لئے پہنچے جہاں انہوں نے اپنے ملک کا مقدمہ جی سیون کے رہنماؤں کے سامنے پیش کیا۔اس اجلاس میں روس کا مقابلہ کرنے کے لئے یوکرین کو ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی فراہمی کے امریکی اعلان کو صدر زیلنسکی کی بڑی کامیابی قراردیاجارہاہے۔عالمی منظر نامے پر گزشتہ ہفتے کی تیسری اہم پیش رفت چین وسطی ایشیا ئی سربراہی اجلاس کاانعقاد تھا جس میں جمہوریہ قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان نے شرکت کی۔ چین وسطی ایشیا سمٹ کے اعلامیے میں شریک ممالک نے تجارت، ریل اور سڑک کے رابطوں کو فروغ دینے، پروازوں کو بڑھانے اور چین، کرغزستان اور ازبکستان کو ملانے والی سرحد پار ریلوے کی تعمیر کو تیز کرنے پر اتفاق کیاگیا۔کانفرنس میں شریک تمام ممالک نے فوسل فیول، قابل تجدید توانائی، تعلیم، سائنس، سیاحت اور صحت کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے طریقہ کار کی منظوری بھی دی۔ انہوں نے مزید زرعی تعاون کے امکانات تلاش کرنے کا بھی فیصلہ کیاجب کہ چین نے وسطی ایشیا سے زرعی مصنوعات کی درآمدات بڑھانے پر بھی رضامندی کااظہار کیا۔