عنوان فلسفیا نہ لگتا ہے لیکن قوم اور ملک سے میری مراد سید ھے سادے الفاظ میں حفیظ جا لند ھری کے لکھے ہوئے قومی ترانے کی ایک دعا ہے قوم ، ملک سلطنت پا ئندہ تا بند ہ باد، شاد باد منزل مراد 1949میں غلا م علی چھا گلہ کی بنائی ہوئی دھن پر حفیظ جا لندھری نے اپنی نظم میں یہ دعا شا مل کی اور ایک بڑے مقا بلے کے بعد اس نظم کو پا کستان کا قومی ترانہ قرار دیا گیا قوم کے کروڑوں بچے ہر صبح اپنے سکول کی اسمبلی میں یہ قومی ترانہ گا تے ہیں اور ساز ینہ کے بغیر سو زو ساز میں گا کر دلوں کو سر شار کر تے ہیں اور مجھے سکول کی اسمبلی میں گا یا ہو ا ترانہ کسی بڑی تقریب میں سا زینہ کے ساتھ گائے ہوئے ترانے سے زیا دہ متا ثر کرتا ہے ترانہ گا تے ہوئے پا ئیدہ ، تابندہ باد ، شاد بادمنزل مراد کہتے ہوئے بچوں کی آنکھوں میں جور ونق نظر آتی ہے وہ دلوں کو پگھلا دیتی ہے اور روح میں اتر جا تی ہے جب بھی ملک پر کسی ازما ئش کی گھڑی آتی ہے مجھے دومناظر یا د آتے ہیں پہلا منظر یہی سکول کی اسمبلی میں قومی ترانے کا منظر ہے دوسرا منظر قدرے مختلف ہے میں جب بھی شندور کے راستے گلگت کا سفر کر تا بلا نا غہ ایک وقت کی یا 3اوقات کی نما ز یں گو لا ختوری غذر میں مو لا نا عبد الرحمن مر حوم کی اقتداءمیں پڑھا کر تا تھا ان کی خصوصیت یہ تھی کہ اپنے محلے کی چھوٹی سی کچی مسجد میں بمشکل دو چار مقتدیوں کو نما ز پڑھا نے کے بعد درود شریف پڑ ھ کر پا کستان کی بقا اور سلا متی کے لئے رو کر اور گڑ گڑا کر دعا مانگا کر تا تھا اگر نما ز میں 5منٹ لگتے تو مولانا کی دعا 30منٹ کی ہو تی تھی۔ دعا کے دوران ان کی سفید داڑھی آنسووں سے تر ہو تی تھی ان کی دعا پر آمین کہتے ہوئے دل گواہی دیتا تھا کہ پا کستان کا استحکا م یقینی ہے اور پا کستان کی سالمیت پر کبھی کوئی آنچ نہیں آئیگی جس طرح سکولوں کے کروڑوں بچوں اور بچیوں کی معصوم دعائیں پا کستان کے ساتھ ہیں اس طرح چھوٹی چھوٹی کچی مسجدوں میں کروڑوں ، بے لوث اور مخلص نما زیوں کی دعائیں بھی پا کستان کے گرد حصار بنا دیتی ہیں دشمن ہزار جتن کرے تب بھی اس مضبوط حصار کو نہیں توڑ سکتا ۔یہ آج کی بات ہے تا ہم اس کی تائید میں پوری تاریخ پڑی ہے بڑی لائبریریوں میں پرا نے اخبارات کی فائلیں محفوظ ہیں سول اینڈ ملٹری گزٹ کی فائلوں کو کمپیو ٹر میں محفوظ کیا گیا ہے ۔ اخبارات کی پرا نی فائلوں کا ریکارڈ بھی نیٹ پر دستیاب ہے 1947ءمیں کا نگریس کے بڑے بڑے لیڈر کہتے تھے پا کستان چند دنوں کا مہمان ہے قیا م پا کستان کے بعد اس نوزائیدہ ملک کو قابل تقسیم اثا ثوں (Divisible) میں اس کا جا ئز حصہ نہیں ملا دفترات میں کا غذ اور سوئی تک ہر چیز کی کمی تھی قدرت اللہ شہا ب اور دیگر لکھنے والوں نے اس بے سرو ساما نی کا حال لکھا ہے دشمن اس انتظار میں تھا کہ پا کستان کا نا م مٹ جا ئے گا لیکن پا کستان کا نا م چمکتا رہا اور دشمن کو مایو سی ہوئی ۔پا کستان کی سالمیت کا ضا من صرف معصوم ، بے لو ث اور مخلص پا کستانیوں کی آہوں ، سسکیوں اور آنسووں میں گُندھی ہوئی دعائیں تھیں پا کستان کی تاریخ میں کم از کم اکیس (21) بار ایسے موا قع آئے جب پا کستان کی سالمیت پر انگلیاں اٹھا ئی گئیں شکوک اور شبہات پیدا کئے گئے ما یوسی پھیلا ئی گئی لیکن پا کستان کے استحکام پر کوئی آنچ نہیں آئی ۔پا کستان مستحکم رہا اور آگے بڑھتا رہا ، کچھ لو گ کہتے ہیں کہ حا لا ت بہت خرا ب ہیں ان کی اطلا ع کے لئے یہ بات کا فی ہے کہ حا لات 1947میں بھی خراب تھے اس کے بعد بھی کئی بار حالات خرا ب کئے گئے مگر اللہ پا ک نے پا کستان کو بچا لیا علا مہ اقبال کا مصر عہ یا د رکھنے کے قابل ہے ہزار مو جو ں کی ہو کشا گش مگر یہ دریا سے پا ر ہو گا ۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی