موسمیاتی تبدیلیاں اہل زمین کی غفلت اور لاپرواہی کانتیجہ ہے اور اِس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ کرہ¿ ارض کی آب و ہوا کو آلودہ (زہریلا) بنانے کی غلطیوں سے سبق بھی نہیں سیکھا جا رہا۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں‘ چاہے وہ سیاسی ہو یا غیرسیاسی‘ معاشی ہوں یا اِقتصادی یا پھر حکمرانی سے متعلق ہوں‘ ضرورت ماحول کو ترجیح بنانے کی رہتی ہے اور ماحول میں عدم دلچسپی کسی بھی صورت قابل معافی کوتاہی نہیں ہے۔ چند دن پہلے خبر ملی کہ خیرپور (سندھ) میں گیارہویں جماعت کا ایک طالب علم شدید گرمی کی وجہ سے اُس وقت فوت ہوگیا جب وہ بورڈ امتحان میں شریک تھا لیکن امتحانی مرکز میں گرمی سے بچاو¿ کے لئے خاطرخواہ انتظام موجود نہیں تھا۔ طالب علم شدید گرمی برداشت نہ کر سکا۔ دیگر طلبہ کی حالت بھی غیر ہوئی کئی زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے بے ہوش ہوئے۔ کیا یہ صورتحال معمولی نوعیت کی ہے اور چونکہ کسی دور افتادہ گاو¿ں کی ہے اِس لئے آب و ہوا کے ماہرین گزشتہ کئی مہینوں سے متنبہ کر رہے ہیں کہ سال دوہزارتیئس کا موسم گرما جنوبی ایشیائی خطے کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا لیکن پھر بھی حکام آب و ہوا کی انتہائی شدید صورتحال سے نمٹنے کے لئے بہت ہی کم توجہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ سال (اکتوبر میں) ’سپر فلڈ‘ کے نتیجے میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب آنے کے بعد بین الاقوامی برادری نے غیرمشروط و غیرمعمولی امداد کا وعدہ کیا تاکہ وہ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کی جا سکے‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم اب بھی موسمیاتی تبدیلی کی شدت اور مختلف صورتوں میں غیر یقینی کا شکار ہیں اگرچہ گزشتہ کئی سالوں سے دنیا بھر کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ سال دوہزارپندرہ کی بات ہے جب ملک میں ’ہیٹ ویو‘ کی شدت دیکھی گئی تھی۔ صرف کراچی میں ایک ہزار سے زائد افراد جا ن سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں اکثریت بے گھر اور پسماندہ افراد کی تھی۔ یہ حکام کے لئے ویک اپ کال ہونی چاہئے تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا گیا جس سے تعمیر و ترقی میں ماحول کو دی جانے والی ترجیح کو دیکھا جا سکتا۔ پاکستان میں ’موسم گرما‘ اپنے ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ لے کر آتا ہے۔ جیسے جیسے توانائی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے‘ حکومت دستیاب بجلی کی فراہمی منظم کرنے کے لئے شیڈولڈ لوڈ شیڈنگ کرتی ہے لیکن مالی وسائل رکھنے والے بجلی و گیس جنریٹرز کا استعمال شروع کر دیتے ہیں اور یوں قومی خزانے پر ایندھن کی درآمد کا اضافی بوجھ پڑتا ہے لیکن غریب طبقات موسم گرما کی سختی خاموشی سے برداشت کرتے ہیں۔ جن کے لئے ہر سال موسم گرما میں بجلی کی قیمت بھی بڑھا دی جاتی ہے اور یوں فی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے غریب و متوسط طبقات جن کی تعداد پاکستان کی آبادی کے نصف سے زیادہ ہے‘ گرمی کی لہر سے خود کو خاطرخواہ محفوظ نہیں رکھ پاتے۔ ائر کنڈیشننگ یونٹس اور دیگر کولنگ ڈیوائسز کا استعمال غریبوں کے لئے کس طرح ممکن ہے جبکہ وہ ایک پنکھے اور ایک بلب کا بل بھی ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں زرخیز و سرسبز علاقوں کی کمی واقع ہورہیہے اور زرخیز مٹی کی تہہ کو کنکریٹ سے ڈھانپ کر دفن کیا جا رہا ہے وہاں اگر حکومتی محکمے یہ دعویٰ کریں کہ وہ ’ماحولیاتی بحران‘ سے نمٹنے کے لئے حکمت عملیاں وضع کئے ہوئے ہیں اور اپنے طور پر تیار ہیں تو اس کا عملی اظہار ضروری ہے ،دوسری طرف ابرسرزمین حقائق زیادہ تلخ ہیں۔ شہری علاقوں میں گرمی کی لہر دیہی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے جس کی وجہ سے درختوں اور سبزہ زاروں کا نہ ہونا ہے۔ پشاور جو کبھی ”پھولوں کا شہر“ کہلاتا تھا یہاں راہگیروں کے لئے ٹھنڈے پانی کی سبیلیں اور ابتدائی طبی امداد (فرسٹ ایڈ) کے مراکز کا قیام ترجیحی بنیادوں پر ہونا چاہئے۔ واضح ہے کہ گرمی کی لہر اور شدت میں اضافے کے باوجود مختلف متعلقہ حکومتی محکموں کی جانب سے حکمت عملیاں وضع نہیں کی جا رہی ہیں اور نہ ہی یہ محکمے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ حقیقت حال یہ کہ محکمہ¿ تعلیم شدید گرمی میںامتحانات منعقد کر رہا ہے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کو درپیش موسمیاتی اثرات اور اِس سے پیدا ہونے والے حالات و خطرات کے بارے میں غلط معلومات کی بنا پر اقداما ت کئے جا رہے ہیں۔ موسم گرما کی شدت میں اگر تعلیمی اداروں کے اندر مناسب انتظامات کرنا ممکن نہیں تو تعلیمی اداروں کے اوقات میں تبدیلی اور گرم میدانی علاقوں میں موسم گرما کی تعطیلات قبل ازوقت دینے ہی میں عافیت ہے۔