جو کل تھا وہ آج نہیں جو آج ہے وہ کل کہا ںہوگا‘ وقت وقت کی بات ہے ‘ نئے ساز آتے ہیں اورپرانے بدلتے ہیں اسی طرح زمانہ کے انداز بھی نئے ہونے لگتے ہیں ‘سائنس ہو یا عام زندگی سب میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔یہ ساری کہانی سائنس کی ترقی کی وجہ سے بدل جاتی ہے‘سائنس کا دور جب نہ تھا تو زمانہ ایک ہی رفتار سے چل رہاتھا جب بجلی بھی نہ تھی ۔یہ بہت پرانی بات تو نہیں یہی کوئی زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو سال پہلے دنیا میں بجلی آئی ہے ۔پھر اس کے بعد سائنس نے کیا کیا کرشمے دکھلائے ہیں ‘ وہ کرشمہ سازیاں ہیں کہ عقل حیران ہو جاتی ہے۔بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی میں ایک ہی چینل اور اس کی اپنی مقررہ ٹائمنگ کی حد کہ رات بارہ بجے ٹرانسمیشن کا اختتام قومی ترانے کے بعد ہو جاتا ۔مگر آج تو رنگین ٹی وی بھی ماضی کا حصہ بن گئے آج ایل سی ڈی سے ایل ای ڈی اور میموری کارڈ سے موبائل اور کہانی کہاں کہا ںبل کھا کر کسی بہتے ہوئے دریا کی طرح آگے نکل گئی ہے۔آج ٹی وی کے سینکڑوں چینل ہیں اور چھت پر ڈش نے سایہ کیا ہوا ہے۔اقبال نے اسی صورتِ حال کو جو ان کے زمانے کچھ اور تھی مگر تبدیلی کی شکل میں نظر آ رہی تھی دیکھ کر کہا تھا ” آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں ۔محوِ حیرت ہو ں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی“۔مگر آج ہم خود محوِ حیرت ہیں کہ آنے والے زمانے میں اب اور کتنا اس زمانے نے بدلنا ہے ۔ سب کچھ تو بدل ہی گیا ہے‘رسوم ورواج تک بدل گئے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی بدل گئی اور ہر جگہ سے بدلی ہے‘ ذہن ما¶ف ہو جاتا ہے کہ اب دنیا او ربھی کیا بدلے ۔مگر اسی تبدیلی کے بطن سے اور تبدیلیاںجنم لیں گی‘زندگی کے ہر شعبہ میں زندگی نئی انگڑائی لے رہی ہے ۔ ہمارے ہاں ہی نہیں دنیا کے ہر کونے میں زندگی نئی کروٹ سے سوتی اور نئے انداز سے جاگتی ہے‘یہ بھی تو ایک تبدیلی ہے کہ پشاور پھولوں کا شہر تھا مگر اب نہیں رہا ۔اب تو یہ شہر دھول دھبے مٹی گردو غبار کا شہر ہے گویا سبزہ و گل کی جگہ گل و گلزار پہ خاک پڑ رہی ہے۔وہ سولہ دروازے اب نہیں رہے ‘یہ جو کھڑے کئے گئے ہیں رسمی طور پر اٹھا دیئے گئے ہیں ۔حالانکہ یہ دروازے سمیت اپنی دیوارِ شہر کے ختم ہو چکے ہیں۔ انھیں میں سے ایک یکہ توت دروازہ ہوا کرتا تھا۔ جس کے باہر نکلو تو ہر طرف قبرستان ہوتا تھا۔ دروازہ کے باہر جانے والوں کے لئے سڑک کے دو کناروں پرپھول بیچنے والے بیٹھے پھول بیچا کرتے تھے۔ عید کے دنوں میں یہاں دروازے کے اندر دال او رخشخاش اب بھی بیچے جاتے ہیں ۔ مگر وہ بہار نہیں ہوتی جو ماضی میں ہوتی تھی ۔ پورا شہر مٹھی میں جگنو کی طرح سمٹ آتا تھا مگر اب تو حالات وہ نہیں رہے ۔سائنسی تبدیلی انسانی رویوں تک کو تبدیل کردیتی ہے ۔کل جو وفادار ہو تے تھے وہ اس ترقی کی وجہ سے بے وفا ہو جاتے ہیں۔”اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں ‘کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہوجائیں۔ توبھی ہیرے سے بن گیا پتھر ۔ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں“۔ فراز نے اسی تبدیلی کو محسوس کیا ہوگا ۔یونہی تو شاعر شعر نہیں کہہ دیتے‘ شاعر ہم سے پہلے سوچتے ہیں ۔وہ سوچ جو ہم اپنے زمانے کے گزر جانے کے بعد بھی نہیں سوچتے ۔پشاور کے پشور کے کیسے جیدار لوگ تھے جو اب نہیں رہے ۔وہ اس شہر کی تہذیب و ثقافت کی کنجیاں ہماری اس موجودہ نسل کے حوالے کر گئے ہیں ۔پھر اس پر کمال یہ کہ ہم ان رسموں کو خوب رجھ کر پامال کر رہے ہیں۔شاید یہ وقت کا تقاضا ہو شاید ایسا ہی ہوتا ہو ۔مگر جو لوگ تھے کیسے کیسے لوگ جانے کیا لوگ تھے کیا کہتے تھے۔وہ سب کچھ تو اب خزانہ بن کر تہہ خاک جاکر پوشیدہ ہو گیا ہے۔مگر جو اب ہے اس خزانے کی حفاظت کرنا ہے ۔اپنی روایات اور رسوم ورواج کو بچا کررکھنا ہے ۔مگر یہ بھی معلوم ہے کہ وقت کی تلوار دو دھاری ہوتی ہے اس درانتی کے دندانے ایک طرف نہیں دو اطراف ہوتے ہیں‘ یہ سفاکی سے برے طریق قطع و برید سے کام لیتی ہے ‘جو اس کے نیچے آیا وہ گویا گندم پیسنے والی چکی کے سوراخ میں گندم کے دانے کی صورت گیا ۔کوئی بھی اس چکی میں پس جائے تو اس کو اس طرح بدل جانے سے کوئی روک نہ پائے گا۔