ایشیا اور یورپ کو ملانے والا منصوبہ

دو تین سال قبل جب صوبائی حکومت نے پشاور شہر میں واقع برصغیر کے نامور دو اداکاروں کے گھروں کو نیشنل ہیریٹیج heritageڈکلیئر کرکے ان میں میوزیم بنانے کا اعلان کیا تھا تو خیبر پختونخوا کے فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے حلقوں نے اس اعلان کی کافی پذیرائی کی تھی۔ جی  ہاں ہمارا اشارہ قصہ خوانی کے محلہ خداداد  میں دلیپ کمار کی جائے پیدائش اور قصہ خوانی میں واقع ڈھکی منور شاہ  میں واقع پرتھوی راج کپور کی حویلی کی طرف ہے کہ جس میں راج کپور پیدا ہوئے تھے۔ شروع شروع میں تو حکومت کے متعلقہ محکموں نے ان گھروں کو خریدنے اور ان کی مرمت کرنے کے بعد ان کو میوزیم میں منتقل کرنے کی کوشش میں بڑھی  تیزی دکھائی تھی  اور ایک مرحلے پر لگ یہ رہا تھا کہ شاید یہ پراجیکٹ بہت جلد مکمل ہو جائے پر اس کے بعد اس پر جیسے اوس پڑ گئی ہو کیونکہ ایک مدت سے اس ضمن میں کچھ سننے میں نہیں آ رہا۔ پرتھوی راج کی حویلی تو خیر آج بھی اچھی حالت میں ہے پر دلیپ کمار  کے آ بائی گھر کی حالت تو ایک عرصے سے ناگفتہ بہ ہے اور اس کی اوریجنل حالت میں بحالی کافی محنت طلب ہوگی۔ 1988میں جب دلیپ کمار پچاس برس کے بعد پشاور آئے تھے تو انہوں نے اپنے اس گھر کا بھی چکر لگایا تھا اور اس موقعہ پر  ان کی خوشی دیدنی تھی۔اس جملہ معترضہ کے بعد کچھ ذکر عالمی منظر نامے کا ہوجائے جہاں ماسکو پر یوکرینی ڈرون حملے نے روس یوکرین تنازعے کومزید خطرناک بنا دیا ہے۔دوسری طرف ایشیا کو یورپ سے ملانے والے ٹرانسپورٹ منصوبے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔تفصیلات کے مطابق عراقی وزیر اعظم نے 17 بلین ڈالر کے اس علاقائی ٹرانسپورٹ منصوبے کا اعلان کر دیا ہے، جس کا مقصد ایشیا سے یورپ تک سامان کی ترسیل کو آسان بنانا ہے۔ یہ اعلان بغداد میں ہونے والی ایک روزہ کانفرنس میں کیا گیا ہے۔ اس اہم علاقائی اجلاس میں عراق، خلیجی ممالک، ترکی، ایران، شام اور اردن کے وزرائے ٹرانسپورٹ اور نمائندوں نے شرکت کی۔عراقی وزیر اعظم نے اس موقع پر کہا کہ یہ ترقیاتی منصوبہ بصرہ میں واقع گرینڈ فاو بندرگاہ کے ذریعے خلیجی ممالک سے یورپ تک سامان کی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرے گا۔ بتایا گیا ہے کہ ریلوے اور ہائی ویز کے نیٹ ورک کے ذریعے ایشیائی ممالک کو ترکی سے ملایا جائے گا اور ترکی کے راستے یورپ سے منسلک ہوں گے۔ اس منصوبے کا ایک مرکز گرینڈ فا پورٹ(الفاو البیر) ہو گی جبکہ اس بندرگاہ کے قریب ہی ایک سمارٹ صنعتی شہر تعمیر کیا جائے گا۔عراقی وزیر اعظم نے اس منصوبے کومعاشی لائف لائن کے ساتھ ساتھ مفادات، تاریخ اور ثقافتوں کے ہم آہنگی کے لئے ایک امید افزا موقع قرار دیا ہے۔عراقی وزیر اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ اس منصوبے کی مالی اعانت کیسے کی جائے گی لیکن انہوں نے کہا کہ عراق اپنے برادرانہ اور دوست ممالک کے ساتھ تعاون پر بہت زیادہ انحصار کرے گا۔ کانفرنس میں شریک ممالک نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے مشترکہ تکنیکی کمیٹیاں قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ منصوبہ کامیاب رہتا ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ کار بڑھتا جائے گا اور پھر پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک بھی اس میں شامل ہو سکیں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس منصوبے کو بعدازاں چین کے روڈ اینڈ بلیٹ منصوبے سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔اور یہ انتہائی اہم منصوبہ ہے جس سے پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں یہ امر یقینا زیادہ قابل توجہ ہے کہ عراق‘ ترکی اور شام کے اس منصوبے میں چین بھی بعدازشامل ہوگا بلکہ زیادہ امکان یہی ہے کہ اس وقت بھی یہ منصوبہ چین کے زیر نظر ہے اور وہ ان ممالک کے ساتھ قریبی رابطے میں ہو‘ حقیقت جو بھی ہے یہ خوش آئند پیش رفت ہے جس پر ان ممالک کے قائدین خراج تحسین کے مستحق ہیں جو اس منصوبے کو پروان چڑھا کر خطے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرینگے۔