انسانی سرگرمیاں سالانہ بنیادوں پر 430 ملین ٹن پلاسٹک پیدا کرتی ہیں، جو نہ صرف زمین بلکہ اس پر بسنے والے انسان اور جانوروں کے لیے بھی انتہائی مضر ہے۔ اب حکومتیں پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں۔ پیرس میں اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کا اجلاس جاری ہے، جس میں عالمی سطح پر پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے لئے ایک معاہدے کو حتمی شکل دی جانی ہے۔ اس سلسلے میں آئندہ برس کے اواخر تک پانچ اجلاس ہونے ہیں، جن میں سے یہ دوسرا ہے۔'انٹر گورمنٹل نگوشیئیٹنگ کمیٹی فار پلاسٹکس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ 2024 کے آخر تک ایک ایسے اولین معاہدے کو حتمی شکل دی جائے، جو پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کا باعث بن سکے۔کمیٹی، جس ڈیل کو حتمی شکل دے گی، اس پر دستخط کرنے والے قانونی طور پر اہداف پورے کرنے کے پابند ہوں گے۔ انسانی سرگرمیاں سالانہ بنیادوں پر 430 ملین ٹن پلاسٹک کوڑا کرکٹ پیدا کرتی ہیں، جو نہ صرف سمندروں بلکہ آبی حیاب اور ہماری زمین کے لئے بھی انتہائی مضر ہے۔ 'آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے اندازوں کے مطابق اگر اس وقت اقدامات نہ کیے گئے، تو 2060 تک پلاسٹک سے پیدا ہونے والا کوڑا کرکٹ تین گنا تک بڑھ سکتا ہے۔چھ ماہ قبل یوراگوائے میں منعقدہ مذاکرات کے پہلے دور میں چند ممالک ایک گلوبل مینڈیٹ کے حق میں تھے جبکہ دیگر قومی سطح کے معاہدوں کے حامی تھے۔مندوبین کی کوشش ہے کہ 2040 تک پلاسٹک کی آلودگی ختم کی جائے کیونکہ یہ انسانی صحت اور ہمارے ماحول کے لئے لازمی ہے۔ امریکہ، سعودی عرب اور چین جیسے ممالک بھی ایسے کسی معاہدے کے متمنی ہیں۔ یوراگوائے میں گزشتہ دور میں امریکی وفد کا موقف تھا کہ قومی سطح کے منصوبے ممالک کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیں گے کہ کس قسم کے پلاسٹک سے کتنی جلدی نمٹا جائے۔ پلاسٹک اور کیمیائی مادوں کی پیداوار میں شامل بیشتر کمپنیوں کا مطالبہ ہے کہ معاہدہ اس طرز کا ہو ۔دی انٹرنیشنل کونسل آف کیمیکل ایسوسی ایشنز،دی ورلڈ پلاسٹک کونسل اور امریکن پلاسٹک کونسل چاہتے ہیں کہ پلاسٹک کی آلودگی کی اصطلاح ہٹا دی جائے تاکہ پلاسٹک کے مثبت فوائد کا حصول جاری رہے۔بیون بیلر بین الاقوامی آلودگی کے خاتمے کے نیٹ ورک آئی پی ای این کے کوآرڈینیٹر کے طور پر میٹنگ میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مندوبین کو اس ہفتے کے آخر تک منصوبے کا مسودہ تیار کر لینا چاہئے تاکہ تیسرے دور میں اس پر بات چیت کی جا سکے۔ بیلر نے کہا کہ پلاسٹک کی پیداوار کی رفتار کو تبدیل کرنے کے لئے یہ بات چیت زندگی میں ایک بار آنے والا موقع ہے۔ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سمندر میں پلاسٹک کی شدید آلودگی سے 88 فیصد سمندری انواع متاثر ہو چکی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کھانے والوں میں وہ مچھلیاں بھی شامل ہیں، جو عام طور پر انسان کی غذا ہیں۔یہ رپورٹ جرمنی کے آلفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے مرتب کی گئی ہے اور اس موضوع پر 2590 سائنسی مطالعات کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ سمندر میں پلاسٹک اور مائیکرو پلاسٹک کے اثرات کا احاطہ کرتی ہے۔رپورٹ کے مطابق بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل میں پلاسٹک کے جزیرے بن چکے ہیں، جو پلاسٹک کے تیرتے ہوئے ٹکڑوں سے تشکیل پائے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سطح سمندر سے لے کر اس کی گہرائی تک، قطبین سے لے کر دور دراز کے ساحلوں اور جزائر تک تقریباً ہر سمندری حصے میں پلاسٹک پایا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جانداروں سے لے کر وہیل مچھلیوں کے پیٹ تک میں سے پلاسٹک ملا ہے۔2144 سمندری اقسام کی آماجگاہوں کو پلاسٹک کی آلودگی سے خطرات کا سامنا ہے جبکہ ان میں سے درجنوں اقسام پلاسٹک کھانے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 90 فیصد سمندری پرندوں اور 50 فیصد کچھوں کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف نے خبردار کیا ہے کہ گھونگھوں، شیل فش اور سیپیوں تک میں بھی پلاسٹک کا مواد پایا گیا ہے۔ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ پلاسٹک کی پیداوار 2040 تک دوگنی ہو جائے گی اور اس سے سمندروں میں پلاسٹک کے فضلے میں چار گنا اضافہ ہو گا۔ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پلاسٹک آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے یلو سی، مشرقی بحیرہ چین اور بحیرہ روم ہیں۔ یہ علاقے ابھی سے اس حد تک پہنچ چکے ہیں، جتنے پلاسٹک ذرات ایک سمندری علاقہ جذب کر سکتا ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ماہر ایریک لینڈے برگ کے مطابق پلاسٹک روز بروز سستا ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے اس سے بنی اشیاءکی پیداوار میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ایریک لینڈے برگ کے مطابق اگر صورتحال میں تبدیلی نہ لائی گئی تو'ایکو سسٹم تباہ ہو سکتا ہے، جس سے سمندری خوراک کا نظام مکمل طور پر متاثر ہو گا۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وطن عزیز کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر پلاسٹک کا سالانہ فی کس اوسط استعمال بہت زیادہ ہے پریشانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں پلاسٹک کے اس کوڑے کا سالانہ حجم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بات ملک میں تحفظ ماحول کی کوششوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔پاکستانی عوام اتنے زیادہ پلاسٹک ویسٹ کی وجہ کیوں بنتے ہیں اور اس عمل کے اصل محرکات کیا ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلی بات عام لوگوں کا رویہ ہے، جو پلاسٹک کی ایسی مصنوعات زیادہ استعمال کرتے ہیں، جن کا بعد میں نہ تو کوئی دوبارہ استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی جن کی پیداوار کا طویل المدتی بنیادوں پر کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ماضی میں لوگ خریداری کے لئے جاتے تھے تو ان کے ہاتھ میں کپڑے کے تھیلے ہوتے تھے۔ اب یہ بات فیشن بن چکی ہے کہ گھر سے نکلتے ہوئے ہاتھ میں موبائل فون تو ہوتا ہے لیکن شاپنگ کے لئے کپڑے کا تھیلا ساتھ لے جانا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ اسی لئے پلاسٹک بیگز کا استعمال بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہم دراصل اپنی سہولت دیکھتے ہیں۔ اور اسی سہولت پسندی کے باعث ہم پلاسٹک کے ذریعے زمین اور اسکے ماحول کو تباہ کرتے جا رہے ہیں۔