مردم شماری اِس لئے اہم ہے کیونکہ اِس کے ذریعے معلوم ہونے والی آبادی کے مطابق وفاقی حکومت صوبوں کو مالی وسائل فراہم کرتا ہے جس کی مقدار ’نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ‘ کے پیمانے پر معین ہوتی ہے۔ جس صوبے کی آبادی جس قدر زیادہ ہوگی اُسے وفاقی خزانے اُسی قدر زیادہ مالی وسائل دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ الگ موضوع ہے کہ ’این ایف سی ایوارڈ‘ کے تحت چھوٹے صوبوں سے کئے گئے وعدے اکثر پورے نہیں ہوتے اور جامع ترقی کے محرک کے طور پر کام کرنے کے بجائے‘ این ایف سی ایوارڈ کے تحت وسائل (حق) دینے میں سستی ہی دکھائی جاتی ہے جس میں مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) کو خاطرخواہ اہمیت دینا بھی شامل ہے۔ محدود مالی وسائل کو غیر محتاط انداز میں سے خرچ کرنے کی وجہ سے غربت میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف کمزور ردعمل کی صورت ظاہر ہوا ہے جس سے عوامی معیار زندگی میں گراوٹ آئی ہے۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے متعارف کرائی گئی چند اہم تبدیلیوں کے باوجود ’این ایف سی ایوارڈ میں اصلاحات نہیں ہوئیں۔ مذکورہ ترمیم کے ذریعے سماجی شعبے کی اٹھارہ وزارتیں صوبوں کو منتقل کی گئیں اور ان کی کارکردگی و انتظام کے لئے مقامی حکومتوں کو فعال بنانا لازمی قرار دیا گیا لیکن عملاً ایسا نہیں ہو سکا اور مقامی حکومتیں آج بھی اُتنی ہی کمزور ہیں جتنی اٹھارہویں آئینی ترمیم سے قبل تھیں جبکہ وفاق نے جو اپنے محکمے صوبوں کو دیئے‘ وہ محکمے وفاق سے ختم نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے قومی خزانے پر بوجھ برقرار ہے۔ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی ہر دور حکومت میں کی گئی۔ صوبے اپنے ہاں ترقیاتی عمل‘ قرضوں کی ادائیگی‘ دہشت گردی‘ قبائلی علاقوں کا خیبر پختونخوا میں انضمام سے پیدا ہونےو الی صورتحال‘ کورونا وبائی امراض اور موسمیاتی آفات کے نقصانات کا ازالہ چاہتے ہیں۔ وفاق جو کہ صوبوں میں جائیداد اور زرعی انکم ٹیکس کے علاوہ دیگر محصولات وصول کرتا ہے لیکن اِسے جمع کرنے کا اختیار صوبوں کو نہیں دیتا۔ پاکستان میں ترقیاتی منصوبہ بندی کے کئی پہلو ہیں جن میں ماحولیات اور آب و ہوا کی تبدیلی بھی شامل ہے اور اِس مقصد کے لئے 1990ءکی دہائی کے اوائل سے مالی وسائل مختص کئے جا رہے ہیں لیکن خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے لحاظ سے پاکستان ’ہائی رسک ملک‘ ہے جسے ہر سال باقاعدگی کے ساتھ موسمیاتی نقصانات ہو رہے ہیں اور گزشتہ برس (دوہزاربائیس میں) آنے والے سیلاب سے تیس ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصانات ہوئے جو پاکستان کی کل معاشی حیثیت کے مساوی نقصان ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے جہاں آبادی کے تناسب سے مالی وسائل دیئے جاتے ہیں تو ’تبدیل شدہ منظرنامے‘ میں موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو صوبوں کی مدد کرنی چاہئے اور وقت ہے کہ آب و ہوا سے مطابقت رکھنے والے این ایف سی ایوارڈز وضع کئے جائیں تاکہ صوبے موسمیاتی آفات سے نمٹنے کی تیاری اور اِس سے متاثرہ طبقات کی معیشت و معاشرت بحال کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات و پیشگی انتظامات کر سکیں۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال (عبوری نوعیت) کو دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان نہیں کہ حکومت نیا نیشنل فنانس کمیشن تشکیل دے سکے یا اِس حوالے سے قومی سطح پر اتفاق رائے قائم کی جا سکے تو سوچنا ہوگا کہ سیاسی و معاشی عدم استحکام کی صورتحال میں ایسے فوری اصلاحی اقدامات کیا ہو سکتے ہیں جن سے موسمیاتی تبدیلی جیسے ہنگامی حالات کا مقابلہ کیا جا سکے؟۔اور یہ اقدامات جس قدر جلد اٹھائے جائیں اتنے ہی اس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے یعنی اب اس حوالے سے تاخیر کی گنجائش نہیں۔