سنا ہے باہر ملکوں میں بارشیں ہوں تو وہاں سڑکیں دُھل کر یوں نکھر جاتی ہیں جیسے آئینہ کی مثال ہوں۔ مگرہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔یہاں تو ہر علاقے میں بارش ہوتی ہے ۔قدرت کا اپنا انتظام ہے۔ بلکہ دنیا میں ہر مقام پر بارشیں ہوتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں بارشیں جل تھل مچا دیتی ہیں ۔وہاں کے ترقی کر جانے والے شہرو ںمیں بارش کا ہونا گویا سچ مچ کا تحفہ ہے۔وہاں ان بارشوں میں گھومنے پھرنے کا مزا آتا ہے۔سیمنٹ کے بنے ہوئے فٹ پاتھ جن کی ایک اینٹ بھی اکھڑی نہ ہو مگر یہاں تو پورا فٹ پاتھ جگہ جگہ سے سوراخ دار اور اکھڑا ہواہے ۔جیسے کسی مزدور نے اس پر ریت کو چھاننا ہو ۔یہاں تو چھتری لے کر باہر نکلو کہ چلو مین روڈ تک جاتے ہیں بارش کو انجوائے کرتے ہیں۔ اس موقع پر بارش کو تو ہم کیا انجوائے کریں خود مینہ ہم احمق کو انجوائے کرتا ہے ۔کیونکہ یہاں کہا ںکہاں سے کپڑے بچائیں گے اوپر خوبصورت مناظر کی طرف دیکھیں گے ۔ عمارات اور سبزہ جو مہینہ بھر گرد اور مٹیوں سے اٹا تھا اور اب بارش میں چمک رہا ہے اس کا دیدار کریں یا نیچے پائنچوں کو بچائیںکہ بارش کا گندا پانی جوہڑوںسے نکل کر نئے جامہ کو میلا اور گندا کر رہا ہے ۔زمین پر پڑے ہوئے یہ کھڈے اگر پانی صاف و شفاف ہو تو ایک آئینے کا سا روپ ہو جس میں بندہ اپنا عکس ہی دیکھ لے ۔مگر یہاں تو کیچڑ لپا ہوا پانی اور یوں گدلااور موٹی تہہ والا ہوتا ہے جیسے پانی نہ ہو ہماری سڑکوں سے خام حالت میں پٹرول نکل آیا ہو۔ پٹرول بھی زمین سے نکلتا ہے تو کیچڑ ہوتا ہے ۔اس کو آئل ریفائنری میں کروڑوں روپوں کے خرچے پر صاف کر کے ایئر پورٹ اور پٹرول پمپ پر پہنچایا جاتا ہے۔بارش نہ ہوتو الگ مسئلہ اور ہو جائے تو یہاں جدا مسائل جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔بارش کے نہ ہونے سے حبس اور گرمی اور ماحول کی گندگی زیادہ ہونے لگتی ہے ۔مگر جب میگھا برسے تو یوں جل تھل مچ جاتا ہے کہ سڑک کنارے پڑا کوڑے کا ڈھیر بہہ کر بیچ سڑک کے آن پڑتا ہے ۔یوں گندگی جو پہلے سے موجود ہوتی ہے وہ اور زیادہ ہو جاتی ہے۔کہتے ہیں پیرس کی سڑکیں آئینہ کی طرح صاف ہیں اور جب بارش ہو تو مزید دھل کر شفاف ہو جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں تو سڑکیں بارش میں اور زیادہ گندی ہو جاتی ہے ۔وہ بدبو اور سڑانڈ جو دھوپ کی تمازت میں خشک ہوکر بدبو دینا بند کردیتی ہے ازسرِنو تازہ ہو جاتی ہے ۔سو ایسے میں آپ ہی کہیے کہ بارش کا بادل اگر ہمارے ہاں برس برس جائے تو کیا ہو۔ہاں وہ علاقے جو پوش ہیں وہاں کی سڑکیں صاف او رنتھری ہوئی ہیں۔ پھر وہاں روز جھاڑو لگتے ہیں ۔مگر ہمارے دوسرے علاقوں میں جہاں گندگی کاراج ہے جھاڑو ہی پھری ہوئی ہے ۔کوئی پرسان نہیں کوئی رازدان نہیں کوئی مہربان نہیں۔سو ہم کسی مہمان کو اگر وہ اس بارش میں آنا چاہے تو اپنے گھر بلانے کو یہی شعر کہہ سکتے ہیں جو مصطفی زیدی نے کہہ دیا تھا اور جانے انھوں نے کسی دماغی حالت کی کس کیفیت میں کہا تھا ” انھیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آ¶ ۔ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے“۔ ہمارے جھونپڑیا کے راستے میں بھی کوئی خوبصورتی نہیں ہاںجو کوڑا پڑا ہے اورکوڑے کے ڈھیر ہیں وہی ہمارے علاقے کی شناخت ہیں۔ ہم اپنا پتا بتلانے کو کہہ دیتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں بڑا ڈھیر ہے اس کے ساتھ گلی کے اندر ہمارا مکان ہے ۔اس طرح آنے والا آسانی سے ہمارا مسکن تلاش کر لیتا ہے۔پھر س©ڑکیں اتنی ٹوٹی پھوٹی ہیں اور عین رنگ روڈ کے کنارے پر ہیں۔یہاں تو سڑک کو تاراج کرنے میں قریب کی نہروںنے بھی اپنا بھرپور شرارتی کردار ادا کیا ہے۔کیونکہ بارش نہ بھی تو نہر کاپانی لبالب بھر جانے سے سڑک پر مستقل بنیادوں پر پڑا ہوا موجودملتا ہے۔جس سے سڑک کا سیمنٹ پہلے ہی اکھڑا ہوا ہے۔جہاں کھڈے بنے ہوئے ہیں اور جب بارش کا پانی ان کھڈوں میں جا پڑتا ہے تو عجیب قسم کا سین پارٹ دیکھنے کو ملتا ہے ۔مجھے تو چین کے ملک کا وہ ساز جلترنگ یاد آنے لگتا ہے ۔وہاں تو دس پیالیاں لے کر ان میں سے ہر پیالی میں پہلے سے کم پانی ڈالتے ہیں ۔ پھر ڈنڈیوں سے ان پیالوں کو بجاتے ہیں ۔پانی کے کم زیادہ ہونے سے ہر پیالی الگ آواز دیتی ہے۔جل پانی کو کہتے ہیں۔یہاں توڈنڈیوں کی ضرورت نہیں یہاں تو پاس سے گزرنے والی گاڑیوں کے ٹائر جب ان کھڈوں میں پڑتے ہیں تو ان میں اچھل کر باہر ابلنے والا پانی راہ گزرتے آدمی کے کپڑوں پر جس طرح کی ڈیزائن بنا ڈالتا ہے اس سے تو ہمیں مانچسٹر کی کپڑو ں کی مل کے ڈیزائن یاد آجاتے ہیں۔بارش کی دعائیں مانگنا اور پھر بارش ہو جائے تو سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بیٹھ جانا کہ اب کیا ہوگا۔ جگہ جگہ غلاظت اور کیچڑ کہ گاڑی تو گزر جائے مگر پیدل جانے والے وہاں کھڑے ہو کر راہ نہ پا کر بائیک سواروں کے پیچھے ایک آدھ فرلانگ کے کیچڑ اور کھڑے گندے پانی کے پار اُتر کر گھر کو پہنچ جائیں۔سو یہ ہے ہمارے شہر کی بارش کا حال کہ ٹھنڈک تو ہو مگرحساس دماغوں کو گرمی چڑھنے لگے ۔ یہ اب سے تو نہیں یہ تب سے ہے اور جانے کب تک ہے ۔اس حالت نے بدلنا نہیں ۔