نماز پڑھ کر نکلا تو اس وقت باہر کافی دیر سے ایک صاحب انتظار کر رہے تھے جنہوں نے مجھے کالم کے حوالے سے اپنا مسئلہ بیان کیا تاکہ میں ان کی درپیش ٹینشن کو افسران کے نوٹس میں لا¶ں مگر کیا کریں بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے بیان کرنے میں دوسروں کی دل شکنی ہو سکتی ہے لہٰذا میں تو ایسے موضوعات پر لکھنے سے گھبراتا ہوں کیونکہ میرا کام اپنی تحریروں میں زیادہ سے زیادہ کالم ریڈرز کو خوش کرنا ہوتا ہے‘کسی ایک گلی کے بارے میں تحریر لکھنا کالم کو محدود کرنا ہے مگر کوشش کر کے کبھی ہم لکھ بھی دیتے ہیں کہ معاملہ بہت سنجیدہ ہوتا ہے لیکن کالم نویسی کا مقصد کافی سے زیادہ لوگوں کا مسئلہ بیان کرنا ہوتا ہے جس پر سرکار کی طرف سے عمل درآمد ہو نہ ہو مگر ان کا مسئلہ ہائی لائٹ تو ہو جائے‘ایک دوست نے کہا اور ٹھیک کہا کہ نہر کا پانی ہمارے بہت بڑے قبرستان میں آجاتا ہے جس سے قبرستان کی بے حرمتی ہوتی ہے‘ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے مگر یہ جگہ جہاں بھی ہے اس مسئلے کا علاج کرنا چاہئے‘پھرگل بہار کے علاقے میں شاہ سٹریٹ میں سوئی گیس جو فراواں تھی مگر ہفتہ دس دنوں سے بالکل غائب ہے اتنی کہ ہمارے پیارے ایک گھرانے نے سلینڈر بھی نہیںرکھا بلکہ وہ تو سلینڈر سے ڈرتے ہیں کہ پھٹ جائے گا کیونکہ آئے دن ان کو مختلف اخبارات میں یہی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں‘مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ ان کے ہا ںمٹی کا بتیوں والا چولھا پڑا تھا ان کے بقول یہ چولھا پچاس سال پہلے ان کے والد نے جدہ ائر پورٹ سے خریدا تھا۔حالانکہ ہم نے کہا دیکھیں ہمارے علاقے میں بھی گیس نہیں ہے مگر لوگوں نے تو گیس کٹس لگا رکھی ہیں جس سے وہ گیس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں ‘آپ بھی لگا لیں‘ انہوں نے فرمایا کہ یہاں اس گلی میں گیس سرے سے موجود ہی نہیںتو گیس کمپریسر لگانا توبےکار ہوگا پھر انہوں نے کہا اور صدقے جا¶ں ان کی دیانتداری کے کہ وہ جس عادت کی وجہ سے خاندان بھر میں اور دوستوں میں پھر افسری کے دوران میں بھی مشہور تھے اور ہمیں پسند بھی ہیں انہوں نے کہا یہ غیر قانونی کام مجھ سے نہ ہوگا‘علاقے کے لوگوں کا وفد آیا کہ آپ سول سیکرٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری تھے آپ کی بہت چلتی ہے آپ ہمارے ساتھ سوئی گیس کے دفتر میں درخواست لے کرچلیں مگر ان کی بات پر مجھے اندر اندر ہنسی آئی کہ جو بندہ اتنا دیانتدار ہو کہ دوسرے کا غیر قانونی کام نہ کرتاہو اس کی بھی بھلا کیا چلتی ہوگی اور اس کا اگر قانونی کام بھی ہو تو ہو جائزکام بھی تواگلا کرتے بھی نہ کرے؛اب اس طرح کے کام تو اس شہر کے ہر بندے کے ہیں جو الجھے ہوئے ہیں مگر کبھی کسی دھڑے کی جانب سے ڈیمانڈ آ جاتی ہے کہ ہمارے حق میں لکھیں‘ہمارے مخالفین کو چھوڑیں مگر انکے مخالف ہوں یا ہمارے اپنے ہوں سب کا دل رکھنا پڑتا ہے کیونکہ اس شہر میں دو چار بندے ہمیں جانتے ہیں جن میں دوست ہیں شاگرد ہیں استاد ہیںوٹس ایپ گروپ کے پورے پاکستان کے تین سو سے زیادہ شاگرد ہیں ‘سو ہم کسی دھڑے کےساتھ اپنی وابستگی کیوں شو کریں ۔ہماری مثال تو اسمبلیو ںکے سپیکر سی بن جاتی ہے کہ کسی ایک پارٹی کا ہو کر بھی اس نے کسی ایک پارٹی کا ساتھ نہیں دینا ہوتا‘ہماری تو اول کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہم تو تماش بین ہیں ‘ ہمارے کالم ریڈر اس خاکسار سے بہت محبت کرتے ہیں ‘ہم نے ان کی محبت کا مان رکھناہے‘ جان رکھنا ہے کہ کسی کا دل نہ دکھے ‘ وہ مسئلہ بیان ہو جو سب کےساتھ تعلق رکھے ‘وہ مسئلہ نہ ہو جس سے ہمارا سب سے تعلق ٹوٹ جائے او رہم اکیلے رہ جائیں او رخود ہی گائیں خود ہی طبلہ بجائیںخود ہی ہارمونیم پر راگ الاپیں اور خود ہی تالیاں بجا کر اپنے آپ کو ڈھارس دیں‘کالم کاری کا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ہمارے مہربان ہم سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں‘ یہاں ہم شاہِ شطرنج ہیں اور رنج ہے کہ کسی ایک دھڑے کے حق میں نہیں لکھ سکتے یوں بے گنا ہ کسی پر تہمت لگا دیں اور بعد میں اس کی صفائی کرنے کےلئے جو داغ ہمارے دامن پرلگے اس کو دھونے کےلئے نلکے کے نیچے بیٹھیں تو وہ داغ ہمارے دامن پر اس ناکام کوشش میں مزید پھیل جائے او رہم پشیمان ہو کہ داغ لگا تو لگا رہتا دھونے کی کوشش کیوں کی ہے۔