پاکستان نے افغانستان‘ ایران اور روس کے ساتھ پیٹرولیم و قدرتی گیس سمیت بعض دیگر اشیا کے ’بارٹر ٹریڈ‘ کی اجازت دینے کا خصوصی حکم نامہ جاری کیا ہے۔ یہ حکم نامہ ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کاسامنا ہے لیکن اگر زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی نہ بھی ہوتی تب بھی ’اشیا کے بدلے اشیا اور مقامی کرنسیوں میں تجارت (بارٹر سسٹم) کے ذریعے پاکستان ایک نہیں بلکہ کئی مشکلات سے نکل سکتا ہے اور قرضوں پر منحصر اِس کی معیشت آزادی (سکھ) کا سانس لے سکتی ہے! دوسری طرف علاقائی تجارت کے فروغ سے حکومت ادائیگیوں کے عدم توازن سے پیدا ہونے والے بحران سے باآسانی نمٹ سکے گی اور اِس سے افراط زر (مہنگائی) پر قابو میں پانے کی کوشش بھی کامیاب ہوں گی۔ اصطلاحی طور پر علاقائی تجارت کو ”بزنس ٹو بزنس (بی ٹو بی) بارٹر ٹریڈ میکانزم ٹو“ کا نام دیا گیا ہے اور اِس حوالے سے جاری ہونے والے حکومتی حکم نامے میں اُن تمام اشیا کی فہرست بھی دی گئی ہے جنہیں بارٹر کے ذریعے درآمد یا برآمد کیا جا سکے گا۔ تاہم اِس ’تجارتی طریقہ¿ کار (میکانزم) سے فائدہ اُٹھانے کے لئے سرکاری و نجی اداروں کے لئے یکساں ضروری ہو گا کہ وہ متعلقہ حکومتی ادارے سے پیشگی منظوری حاصل کریں اور شاید یہی وہ واحد رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ’بارٹر ٹریڈ سسٹم‘ ناکام ہو جائے کیونکہ حکومتی قواعد و ضوابط اور افسر شاہی کو دیئے جانے والے اختیارات (سرخ فیتہ پالیسی) ماضی میں کئی ایسی اور اِس سے بھی زیادہ بہتر حکمت عملیوں کی ناکامی کا باعث بنی ہے اور پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ میں بھی یہی ’سرخ فیتہ پالیسی‘ حائل ہے۔ پاکستان میں تجارتی و کاروباری شعبوں میں ’پائیدار ترقی‘ کی ضرورت ہے جو بنا علاقائی تعاون و تجارت حاصل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان بارٹر ٹریڈ‘ بالخصوص روس و ایران سے تیل و توانائی کی درآمدات ایک عرصے سے مطلوب ہیں اور دونوں ممالک اِس تجارت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن فیصلہ سازوں کی توجہات اِس جانب خاطرخواہ مبذول نہیں رہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اپنی تمام تر درآمدات کے لئے ’ڈالر (امریکی کرنسی)‘ پر انحصار کرتا ہے اُور اِن بیش قیمت کرنسی کو حاصل کرنے کے لئے اُسے قرض حاصل کرنا پڑتے ہیں کیونکہ پاکستانی برآمدات کا حجم درآمدات کے مقابلے کم ہے۔ اِسی طرح قومی اخراجات بھی قومی آمدنی سے زیادہ ہیں تو اِن معاشی اعشارئیوں اور حالات کو معمول پر لانے میں بھی علاقائی تجارت کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے‘ جس کا زیادہ ترقی یافتہ تصور ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے کی صورت چین پہلے ہی دے چکا ہے اُور اگر چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ کا حصہ بنتے ہوئے پاکستان علاقائی تجارت (بارٹر سسٹم) پر بھی شروع کر دیتا ہے تو یہ اضافی (بونس) فائدہ ہوگا۔لمحہ¿ فکریہ ہے کہ پاکستان جو ڈالر انتہائی مشکل و مشقت اور قومی فیصلہ سازی گروی رکھ کر مہنگے داموں حاصل کرتا ہے وہ باآسانی سمگل ہو جاتے ہیں اور تاحال افغانستان کو ہونے والی کرنسی کی سمگلنگ بھی نہیں روکی جا سکی ہے۔ اِسی طرح ایران سے تیل اور ڈیزل غیرقانونی راستوں سے اسمگل ہوتا ہے اور بلوچستان کے طول و عرض حتیٰ کہ کراچی میں بھی ایرانی تیل اور ایرانی پیٹرولیم و دیگر مصنوعات کھلے عام فروخت ہوتی ہیں لیکن اِس سے حکومت پاکستان کو فائدہ نہیں ہو رہا بلکہ اُلٹا معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اپریل میں پاکستان کی جانب سے کم (رعایتی) نرخ پر روس سے تیل کی پہلی خریداری بھی مشروط و محدود رکھی گئی ہے اور اِس کے تحت صرف خام تیل ہی خریدنے کا معاہدہ کیا گیا ہے جبکہ پاکستان میں ایندھن کی قیمتیں تبھی کم ہوں گی جبکہ ’تطہیر شدہ یعنی قابل فروخت حالت میں (ریفائنڈ) پیٹرولیم مصنوعات روس سے درآمد کی جائیں۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال پاکستان نے ایک لاکھ ایک سو چوون ہزار بیرل یومیہ خام تیل درآمد کیا۔ مئی میں پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن نے شکایت کی تھی کہ پاکستان میں فروخت ہونے والا پنتیس فیصد ڈیزل ایران سے سمگل ہو کر آ رہا ہے۔ حکومت نے افغانستان میں آٹا‘ گندم‘ چینی اور کھاد کی سمگلنگ پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ وقت ہے کہ علاقائی تجارت کو آزادانہ اور مساوی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ یہی ملک کے معاشی مسائل کا پائیدار حل اور معاشی آزادی کی جانب پہلا قدم (حل) ثابت ہو سکتا ہے۔