اگر گلی میں ساتھ ساتھ بڑے گھر ہوں تو بارات یاولیمہ کی روٹی وہاں تقسیم کی جائے پھر اس میں برا کیا ہے مگر چونکہ فیشن چل نکلا ہے کہ اگر سو بندے بھی ہوں تولاکھوں کا شادی ہال کرایہ پر لینا ہے خواہ باقی سب ہال خالی ہوں۔ یہ تو لڑکی والوں کی ضد ہوتی ہے یا پھر لڑکے والوں کے گھر سے فرمائش نکلتی ہے کہ ہم نے فلاں شادی ہال میں پروگرام کرناہے وہ گیدرنگ ہال خواہ حیات آباد کی راہ پر ہو اور خود شادی گھنٹہ گھر کی کسی گلی میں ہو رہی ہو۔ جب شادی ہال نہ تھے تو شادیاں گلیوں میں میں ہوا کرتی تھیں‘ گلیوں میں ٹینٹ لگ جاتے تھے۔ خواتین کا پروگرام الگ اور مردوں کا کھانا الگ تقسیم ہوتا تھا‘ مان لیا کہ جس کو خدا کا دیاسب کچھ ہو وہ شادی ہالوں کے تکلفات برداشت کرتا ہے مگر چونکہ آج کل مہنگائی نے خطرناک کھیل کھیلناشروع کر دیا ہے اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ گلیوں کوچوں کے اندر شادی اور بارات کا ڈول ڈالا جائے۔ ایک گلی سے گزر ہوا تو وہاں یہی نظارہ دیکھنے کو ملا‘آمنے سامنے گھروں میں بیٹھکوں کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور دولھا کو گلی ہی میں ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا تھا‘ولیمہ میں شرکت کرنے والے آرہے ہیں اور دولہا کے ساتھ فوٹو سیشن ہو رہا ہے پھر کھانے کے لئے بیٹھکوں میں چلے جاتے ہیں‘ خاص شہروں میں تو اب یہ رواج نہیں رہا مگر شہر کے باہر گاؤں وغیرہ میں اب بھی حجروں اور بیٹھکوں میں باراتیں بیٹھتی ہیں اور ولیمے نپٹائے جاتے ہیں‘ ویسے اگر درمیانے معیار کے لوگوں کے ہاں شادی ہو اور ان کو لاکھ دو لاکھ شادی ہال کے نام پر بچ جائیں تو اس سے اور کون سی بات اچھی ہے مگر یہا ں تو دولہاخود ضد پر چڑھ جاتا ہے کہ میرے دوستوں میں میری عزت کامعاملہ ہے او رمیں نہیں چاہتا کہ ان کو ان گلی کوچوں کی بیٹھکوں میں بلوا کر کھانا کھلاؤں‘ لہٰذا اگر شادی دیر سے بھی کریں تو مجھے منظور ہے مگر میں اپنے معزز دوستوں کو اس ماحول میں ولیمہ اور بارات کے لئے ہرگز نہیں بلواؤں گا کیونکہ ان گلی کوچوں میں تو گاڑی پارک کرنے تک کی جگہ نہیں ہے‘وہ تو عام حالات میں بھی اپنی قیمتی گاڑی لے کر شہر کی راہوں پر نہیں آتے کہ ان کی گاڑی کو خراش لگ جاتی ہے پھر بیش قیمت گاڑی پر ایک خراش سے گاڑی کی قیمت ڈاؤن ہو جاتی ہے‘لہٰذا شہر سے دورکھلے علاقے میں ولیمہ ہو گا اور قیمتی شادی ہال میں ہوگا ورنہ میں شادی ہی نہیں کرتا اس پر اس کے ماں باپ بہن بھائی اپنی عزت بچانے کی غرض سے مجبور ہو جاتے ہیں اور مہنگے ترین شادی ہالوں کا رخ کرتے ہیں‘ گذشتہ زمانے میں ہماری اپنی شادی بھی تو چوک ناصر خان لکڑ منڈی کے محلہ شاہنچہ باشی کی گلی نمبر تین میں ہوئی تھی واہ کیازمانہ تھا گھر سے صوفہ نکال کر ہمیں سڑک کے عین کنارے پر پھولوں کے ہار پہناکر بٹھا دیا گیا تھا‘مہمان آتے سڑک پر ہم سے گلے ملتے مبارک سلامت کے بعد اندر گلی میں جاکر کسی بیٹھک میں بٹھا دیئے جاتے چار پانچ سو آدمیوں کا ولیمہ اور پتا بھی نہ چلاکہ کیسے پروگرام اختتام پذیر ہوا‘ کیونکہ اس موقع پر نوجوانوں کی الگ اور بوڑھوں کی الگ افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے‘دولھا کے دوست جو رشتہ نہ بھی ہوں یوں شادی میں گھل مل جاتے جیسے خونی رشتہ کے بندھے ہوں پھر اپنے کزن وغیرہ او رپھر بھائیوں کے دوست اور خود والد کے دوست بھی ہوتے جو اندر کسی گھر میں جہاں دیگیں کھلی ہوتیں وہا ں کا انتظام سنبھال لیتے۔ اندرسے کھانا خوانچوں میں ڈالا جاتا اور باہر بھیجا جاتا اچھا خاصہ ہنگامہ اور گہما گہمی ہوتی اور خوب مزا ہوتا اب تو شادی ہالوں میں افرادی قوت کی وہ رونقیں نہیں جو ہمارے زمانے میں ہوتی تھیں مجھے یا دہے ہمارے ایک رشتہ دار نے ہمارے خاندان میں پہلی بار ٹھیکہ سسٹم شروع کیا تھا جوشادی ولیمہ یا میت کے موقع پر کھانے کی تقریب ہوتی وہ ان کے حوالے ہو جاتی وہ فی کس کے حساب سے کھانے کا خرچہ لیتے اور اپنے مزدور ساتھ لے آتے اس طرح افرادی قوت کا جھمیلا نہ رہتا‘ دیگی بارات کی رات سے آنے والے کل کیلئے دیگیں چڑھا دیتا‘رات کی کمان دولہاکے انتہائی قریبی دوست اور رشتہ دار سنبھال لیتے‘مہینہ بھر پہلے سے شادی کا پروگرام شروع ہو جاتا۔شادی کی جھنڈیاں گلی کی ایک بیٹھک میں ہفتہ پہلے سے تیا رہو رہی ہوتیں‘ خاکسار کی شادی کی تقریب تو ہمارے قرابت داروں میں برسوں بیت گئے مگر اب بھی نمونہ کے طور پر یادگار سمجھی جاتی ہے۔