امریکہ کی معیشت عارضی طور پر نادہندگی کے خطرے سے باہر آگئی ہے لیکن ممکنہ طور پر دو سال بعد پھر یہ خطرہ پیش آئے گا۔مستقل طور پر نادہندگی کے خطرے سے بچنے کےلئے امریکی حکومت کو قومی قرض کم کرنا ہوگا جس کےلئے ایک طرف قومی ٹیکس آمدنی بڑھانا ہوگی اور دوسری طرف اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے۔19 جنوری کو امریکہ اپنے قرض لینے کی حد 31.4 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ پیر پانچ جون تک اس بل کی کانگریس کے دونوں سے منظوری اور پھر صدر کی توثیق ضروری تھی۔ امریکہ کے محکمہ خزانہ نے متنبہ کیا تھا کہ اگر پیر تک اس قانون کی منظوری نہ مل سکی تو وہ اپنے تمام واجبات ادا نہیں کر سکے گا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کانگریس کی طرف سے پاس کیے گئے قرض کی حد معطل کرنے کے بل پر دستخط کردئیے اور دو سال کےلئے امریکی حکومت کے 31.46کھرب ڈالر کے قرض کی حد معطل کردی۔خوش قسمتی سے صدر بائیڈن اور ایوان نمائندگان کے ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سپیکر کیون میکارتھی کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد 28 مئی کو اس بحران سے نمٹنے پر ایک معاہدہ ہوا جس کے بعد حتمی تاریخ سے ایک روز پہلے اس کی منظوری اور توثیق کا عمل مکمل ہوگیا۔ریپبلکن پارٹی کے زیر کنٹرول ایوان نمائندگان نے 117کے مقابلے میں 314 ووٹوں اور ڈیموکریٹ پارٹی کے زیر کنٹرول سینیٹ نے36 کے مقابلے میں 63 ووٹوں سے اس بل کی منظوری دی۔ اس طرح امریکہ اپنی تاریخ میں پہلی بار نادہندگی سے بچ گیا ہے۔یاد رہے کسی ملک کے قرض کی حد وہ زیادہ سے زیادہ رقم ہے جو وہ حکومت قانونی طور پر حاصل کر سکتی ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد اب امریکی حکومت دو سال تک ضرورت پڑنے پر مزید قرضے لے سکتی ہے۔صدر بائیڈن نے قوم سے اپنے خطاب میں اس معاہدے اور منظوری کو دو طرفہ فتح قرار دیا اور تعاون کے لئے سپیکر میکارتھی اور جیفریز، شومر، اور میک کونل وغیرہ کا شکریہ ادا کیا۔صدر بائیڈن نے کہا کہ معاہدے تک پہنچنا اہم پیش رفت اور امریکی عوام کے لئے بہت اچھی خبر ہے۔ اگرچہ کسی کو بھی وہ سب کچھ نہیں ملا جو وہ چاہتے تھے لیکن امریکی عوام کو وہ مل گیا جس کی انہیں ضرورت تھی۔اس قانون کی منظوری اور نفاذ کے بعد امریکہ ایک بڑے اقتصادی بحران سے بچ گیا جس نے
بائیڈن انتظامیہ کو مہینوں پریشان کئے رکھا اور امریکہ کو نادہندگی کے خطرے کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔اگرچہ کانگریس کی طرف سے قرض کے حد کی معطلی کے معاہدے کی منظوری کے بعد نادہندگی کا خطرہ دو سال کےلئے ٹل گیا ہے، لیکن فِچ ریٹنگز کے مطابق امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ منفی ہی رہے گی۔اس بل کے ڈیموکریٹک پارٹی میں ناقدین کا کہنا تھا کہ اس سے اندرونی اخراجات میں کمی ہوگی جب کہ کئی قدامت پسند ریپبلکن اخراجات میں مزید کمی چاہتے تھے۔ کچھ اور ارکان کےلئے بل میں پینٹاگون کے اخراجات میں کٹوتی ناقابل قبول تھی اور وہ کہتے تھے کہ اس سے فوجی تیاریوں میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔حکومتی اخراجات، ٹیکس پالیسیاں، تجارتی پالیسیاں، اور اقتصادی ترقی جیسے عوامل کے امتزاج کی وجہ سے امریکہ کے قرضوں کا حجم ریکارڈ 31.4 کھرب ڈالر ہوگیا ہے جس میں اضافہ جاری رہنے کا خدشہ ہے۔فی الحال ہر امریکی چورانوے ہزار ڈالر کا مقروض ہے۔ یہ قرض امریکہ کے جی ڈی پی کا ایک سو بیس فیصد ہے جو 2053میں 195فیصد ہونے کا تخمینہ ہے۔ امریکہ کا 31.4 کھرب ڈالر کا قرضہ دنیا میں کسی بھی ملک کا سب سے زیادہ قومی قرضہ ہے جو امریکہ کے بعد دنیا کے چار بڑے مقروض ممالک کے مجموعی قرض سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں چین پر 14کھرب ڈالر، جاپان پر 10.2کھرب ڈالر، فرانس پر 3.1 کھرب ڈالر اور اٹلی پر 2.9کھرب ڈالر کا قرضہ واجب الادا ہے۔نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اگلے 10سالوں میں امریکہ کے قومی قرض میں 19کھرب ڈالر کا اضافہ ہوگا جو روز افزوں سود کی ادائیگیوں، سابق فوجیوں کی صحت کی دیکھ بھال، ریٹائرمنٹ فوائد اور فوج کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا نتیجہ ہے۔ ٹیکس کٹوتیوں، عالمی جنگوں میں شرکت، وفاقی اخرجات میں اضافہ اور کساد بازاری سے بھی
مسائل میں اضافہ ہوا۔31.4 کھرب ڈالر کا بڑھتا ہوا قومی قرضہ امریکہ کے معاشی مستقبل کےلئے بڑا خطرہ ہے۔ کانگریس کے بجٹ آفس کا خیال ہے امریکی بجٹ اگلے 10 سالوں میں مجموعی طور پر بیس کھرب ڈالر کا خسارہ دیکھے گا‘ یاد رہے امریکہ کی مجموعی آمدنی 4.9 کھرب ڈالر ہے جب کہ اس کے قومی اخراجات 6.3 کھرب ڈالر ہیں۔ امریکہ فی الحال روزانہ 1.3 ارب ڈالر سود کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے جو آئندہ دس برسوں میں تین گنا بڑھ جائے گا۔ماہرین کا خیال ہے کہ قرض میں اس اضافے کے بعد امریکہ کےلئے اپنے قومی اخراجات کی تکمیل اور قرضے کی سود میں اضافہ بڑا بوجھ ہوگا۔ امریکہ چونکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے تو اس کی ممکنہ نادہندگی ملک کو بڑی کساد بازاری میں دھکیل دے گا، عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دے گا اور بے روزگاری میں اضافہ کردے گا،۔اس کے قرضوں پر سود میں اضافہ ہوگا۔ 2022میں قومی قرض کے سود کی ادائیگی پر 476ارب ڈالر اخرجات آئے جو 2033 تک 1.4کھرب ہونے کا تخمینہ ہے‘ اس سے نہ صرف تجارتی سرمایہ کاری کم ہوگی اور معاشی ترقی سست ہوگی بلکہ تعلیم، تحقیق و ترقی اور تعمیرات جیسے اہم اخرجات کےلئے رقم کم دستیاب ہوگی، امریکی ڈالر کمزور ہوگا، افراط زر میں اضافہ ہوگا اور وفاقی حکومت کے پاس معاشرے کے کمزور لوگوں کی امداد اور صحت اور سوشل سیکورٹی جیسے لازمی اخراجات کےلئے کم وسائل دستیاب ہوں گے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ امریکہ کی معاشی مشکلات کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ امریکہ کی آبادی میں بوڑھوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ پنسٹھ سال کے افراد 2020میں 56 ملین تھے جو 2030تک پچھانوے ملین ہوجائیں گے۔دوسری وجہ یہ کہ امریکہ میں صحت عامہ کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ یہاں فی کس خرچہ بارہ ہزار ڈالر جبکہ برطانیہ میں پانچ ہزار ڈالر اور جرمنی میں سات ہزار ڈالر ہے۔ تیسری وجہ یہ کہ امریکہ کا ٹیکس نظام اتنی آمدنی نہیں دیتا جتنے اس کے اخراجات ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ کی آمدنی اور اخرجات میں عدم توازن اورسالانہ بجٹ خسارہ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے قومی قرض میں بھی اضافہ ہو رہا ہے تاہم امریکہ میں اس مسئلے کا حل مفاہمت سے نکالا جاتا رہا ہے ۔