جینے کیلئے کھا ﺅ کہ کھانے کیلئے جیو 

ایک مرتبہ ایک شخص نے دانا سے یہ سوال کیا کہ کوئی ایسا نسخہ مجھے بتا دیں کہ جس سے میں طویل عمر تک صحت مند رہوں۔ دانا شخص نے جواب دیا ،تم جو کھاتے ہواس کو آدھا کر دو ،تم جتنا پانی پیتے ہو اسے چار گنا زیادہ پانی پینا شروع کر دو، تم جتنا پیدل چلتے ہو اس سے دو گنا زیادہ چلنا شروع کر دو اگر تم ان تین باتوں پر عمل شروع کرو گے تو تم طویل عمر تک صحت مند رہوگے۔ یہ نصیحت اس دانا نے آج سے ہزاروں برس پہلے کی تھی۔ آج کا ڈاکٹر بھی اپنے مریض کو کم و بیش اسی قسم کا مشورہ دیتا ہے۔ بسیار خوری اور وہ بھی جنک فوڈjunk food کی اور جسمانی ورزش نہ کرنے سے آج کا انسان طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے۔ گراﺅنڈ میں کھیل کود یا واک کرنے کے بجاے آج کا انسان بشمول 
جوان سال طبقے کے افراد کرسی پر بیٹھ کر اپنا زیادہ تر وقت لیپ ٹاپ یا موبائل فون دیکھنے میں گزار ہے ہیں۔ اسلئے وہ شوگر بلڈ پریشر جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو رہا ہیں۔ دکھ کا مقام یہ ہے کہ گھر میں موجود بزرگ لوگ اپنے سے کم عمر والے اہل خانہ کو مندرجہ بالا روش سے نہیں روک رہے۔ اس طولانی جملہ معترضہ کے بعد حسب معمول ہم دیگر اہم قومی اور عالمی امور پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے ۔سات سالوں کے بعد سعودی عرب میں ایرانی سفارت خانہ کھل جانا یقینا چین کی ان دونوں ممالک میں ثالثی کرنے کی پالیسی کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ جس پر امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ امریکہ کب یہ چاہتا ہے کہ عالم اسلام یکجا ہو جائے۔ امریکہ کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ عالم اسلام میں خلیج رہے چین نے سی پیک کا ون بیلٹ ون روڈ کا جو عظیم الشان ترقیاتی منصوبہ شروع کیا ہے اس کی وجہ سے وہ معاشی اور سیاسی طور پر بہت مضبوط ہو رہا ہے اور چینی قیادت کو اس بات کا ادراک ہے کہ اس منصوبے سے سو فیصد ثمرات تب ہی ممکن ہیں اگر ان 
ممالک میں امن عامہ ٹھیک رہے کہ جن میں یہ منصوبے شروع کر دئیے گئے ہیں ۔چینی قیادت اور امریکی قیادت کی سوچ اور ذہانت میں زمین و آ سمان کا فرق ہے ۔ روس سے جو بحری جہاز سستا روسی تیل لے کر پاکستان آ رہاہے اس کے پاکستان پہنچنے میں شاید چند دنوں کی تاخیرہو جائے کہ ایک تو اس کی روس سے روانگی چند فنی مسائل کی وجہ سے دیر سے ہوئی اور دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ اس تیل کو لانے والے بحری جہازوں نے نہر سوئز کو کراس کر کے آ نا ہے کہ جس کو کراس کرنے کے لئے بحری جہازوں کی ا یک لمبی قطار لگی ہے ۔اس لئے روسی تیل کی پاکستان تک رسائی میں مزید کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ بہر حال وطن عزیز کے باسیوں کو سستے روسی خام تیل کی آ مد کا شدت سے انتظار ہے ۔