ہم ایک عرصے سے اس کالم کے توسط سے ارباب اقتدار سے درخواست کرتے آ ئے ہیں کہ افغان شہریوں کی پاکستان میں آ مد و رفت کے واسطے ایک ایسا فول پروف میکینیزم وضع کیا جائے جس سے اس بات کا بھی پتہ لگایا جا سکے کہ جو افغان پاسپورٹ کے ذریعہ پاکستان آ تے ہیں کیا وہ اپنے ویزے کی معیاد ختم ہونے کے بعد اپنے ملک واپس چلے بھی جاتے ہیں یا نہیں ۔ پر چونکہ ایسا نہیں کیا گیا جس بات کا ہمیں خدشہ تھا وہی انجام کار ہوا۔ یہ خبر تشویشناک ہے کہ ایک لاکھ 70 ہزار افغان باشندے پاکستان میں روپوش ہو چکے ہیں۔ طور خم بارڈر سے پاسپورٹ کے ذریعہ 2 لاکھ 60 ہزار افغانی پاکستان آ ئے پر ان میں سے صرف ایک لاکھ 10 ہزار واپس گئے اور واپس نہ جانے والے ایک لاکھ سے زیادہ افغان شہری ملک بھر میں پھیل گئے ہیں ۔یہ لوگ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد آ ئے تھے۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار صرف طورخم بارڈر سے پاکستان میں داخل ہونے والے افغان شہریوں کے ہیں۔ جو افغان شہری دیگر جگہوں پر واقع پاک افغان بارڈر پوسٹوں کے راستے سے بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں ان کی تعداد کا کسی کو اندازہ نہیں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس معاملے میں ارباب بست و کشاد نے اگر مزید
تغافل کا مظاہرہ کیا تو اس سے امن و امان کا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جو لوگ بغیر پاسپورٹ اور پاکستانی ویزے کے وطن عزیز میں داخل ہوتے ہیں ان میں کوئی تخریب کار تو کہیں شامل نہیں ۔نائن الیون کے بعد جس طرح امریکہ نے اپنے ہاںہوم لینڈ سیکورٹی کا نظام وضع کر کے امریکہ میں غیر ملکی باشندوں کی اینٹری کو سخت بنایا ۔ آج ہمیں بھی انہی لائنز پر سوچنے کی ضرورت ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان اور روس کا علاقائی اور عالمی فورمز پر تعاون بڑھانے پر اتفاق ہے۔ گزشتہ سرد جنگ میں ہم اگر چہ سوویت یونین کے مخالف بلاک میں شامل تھے‘ تاہم یہ نہایت خوش آئندہے کہ آج ہمارے روس کے ساتھ دوستانہ دو طرفہ تعلقات میں کچھ عرصے سے اضافہ ہو رہا ہے۔ خارجہ پالیسی کی اس نئی روش میں اضافے کی ضرورت ہے ۔روس کے ساتھ قریبی تعلقات کئی حوالوں سے اہم ہیں سب سے بڑھ کر تو توانائی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے میں روس مدد کر سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس توانائی کے ذرائع کی کوئی کمی نہیں سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بھی روس دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو کئی براعظموں کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور قدرتی ذرائع اور معدنیات سے مالا مال ہے روس سے سستا تیل خریدنے کی صورت میں ہمارے ہاں مہنگائی کو کم کیا جا سکتا ہے اور اس سے صنعتی ترقی کی رفتار بھی برقرار رکھی جا سکتی ہے اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خطے کے ممالک کے باہمی تعلقات خاص طور پر تجارت کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑناضروری ہے اس سے پورے خطے میں خوشحالی آئے گی۔اس وقت عالمی برادری کو مسائل کا سامنا ہے اس کا حل صرف اسی صورت نکل سکتا ہے جب اس کے لئے مشترکہ کوششیں کی جائیں یہ کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی ‘ موسمیاتی تبدیلی اور دیگر مسائل کا تنہا سامنا کر سکے بلکہ تمام ممالک نے مل کر اس بڑے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے اور اس حوالے سے منظم اور مربوط منصوبہ بندی سے کام لینا ہے۔اس وقت چین دنیا کے لئے ایک بہترین مثال ہے جس میں وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جس سے آبادی کے ایک بڑے حصے کو غربت سے نکال کر زندگی کی تمام تر جدید سہولیات سے استفادہ کرنے کے قابل بنایا ہے دیکھا جائے تو پوری دنیا میں کساد بازاری اور تجارتی سرگرمیوں کے مانند پڑنے کی شکایت سامنے آرہی ہیں تاہم چین واحد ملک ہے جہاں پر کاروباری سرگرمیاں مزید تیز ہوئی ہیں اور اس وقت چین میں جس رفتار سے ترقی ہو رہی ہے اس کی مثال مشکل ہے۔