پاک روس تعلقات میں خوشگوار تبدیلی 

یہ امر خوش آئند ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار روسی تیل آئندہ ہفتے پورٹ قاسم پہنچ رہا ہے۔ ایک لاکھ بیرل خام تیل crude oil روس نے دیگر ذرائع کے مقابلے میں 30 فیصد کم قیمت پر بجھوایا ہے۔ عوام اب حکومت سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ روسی تیل کی کم قیمت پر درآمد کے ثمرات ملک کے عام آدمی کو ضرور پہنچائے جائیں گے۔کیونکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ پٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ تو فوری طور ہوجاتا ہے تاہم پٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں کمی کے اثرات عوام تک منتقل نہیں کئے جاتے یعنی کرائے بدستور زیادہ ہی رہتے ہیں۔ادھر پاکستان میں روس کے سفیر کا یہ حالیہ بیان بڑا معنی خیز ہے کہ پاک روس تعلقات کا مستقبل روشن ہو گا کچھ عرصہ قبل تک بھلا کوئی یہ سوچ بھی سکتا تھا کہ وہ دن بھی آے گا کہ جب یہ دونوں ملک اس قدر قریب بھی ا ٓسکتے ہیں اور کئی عالمی اور علاقائی مسائل پر ان کا موقف یکساں بھی ہو سکتا ہے۔ اسے ہی تو نیرنگی سیاست کہتے ہیں روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے میں اس ملک کی بہتری ہے کیونکہ جغرافیائی طور پر ہمارے پڑوس میں واقع یہ ملک ہر لحاظ سے ہمارے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنا حکومت وقت کی واقعی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کے ساتھ اشتراک عمل سے روس اکیسویں صدی میں دنیا پر سیاسی معاشی اور عسکری لحاظ سے راج کرے گا اب تک امریکہ کو خوش رکھنے کیلئے روس سے دوری اختیار کر کے ہم نے اتنا کمایا نہیں کہ جتنا کھویا ہے اور یہ حکومت وقت کی دانشمندی ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھا رہی ہے کہ جن سے روس کا ہم پر اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ پاس پڑوس واقع ممالک کو چھوڑ کر سات سمندر پار ممالک پر تکیہ کرنا بھلا کونسی دانش مندی تھی۔دیر آئد درست آئد بلاخر ہمیں حقیت کا احساس ہوگیا ہے اور ہم نے روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرکے اچھا قدم اٹھایا ہے ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات کا مطلب ساتھ ہی وسطی ایشیاءممالک کے ساتھ بھی جڑنا ہے کیونکہ وہ ممالک اب بھی روس کے زیر اثر ہیں اور پاکستان اگر روس کے قریب ہو جاتا ہے تو لامحالہ طور پر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات میں ڈرامائی بہتری آسکتی ہے اور اس صورت میںتوانائی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے میںوسطی ایشیائی ممالک پاکستان کی بڑی مدد کرسکتے ہیں۔اب تذکرہ کچھ دیگر اہم امور کا ہوجائے ،یوکرین میں ڈیم کی تباہی سے ا س جنگ نے ایک نیا موڑ لیا ہے اور واضح طور پر یہ نظر آنے لگا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی روس کو جنگ میں الجھانے کے بعد اب اس جنگ کو طول دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور یہ جو ڈیم کی تباہی ہوئی ہے اس میں بھی ایسی قوتوں کاہاتھ لگتا ہے جو یوکرین جنگ کے خاتمے کے خلاف ہے چاہے اس کے نتیجے میں پورے یوکرین کوتباہی کاسامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔