امریکہ اور چین کے تعلقات میں ہمیشہ اُتار چڑھا رہا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان صدر نکسن سے صدر بل کلنٹن کے ادوار تک تعلقات اکثر تعاون پر مبنی تھے جو اوباما کے دور میں باہمی مقابلے میں بدل گئے۔ حالیہ چند برسوں سے دونوں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں اور مفاہمت اور تعمیری ربط کے بجائے شکوک، خدشات، حسد، مقابلے اور ردعمل کی حرکیات کا شکار ہیں۔چین کی جانب سے اپنی معاشی طاقت اور عالمی حیثیت میں اضافے کی خواہش دراصل اس کی درخشاں ماضی کی بحالی کی کوشش ہے۔ لیکن امریکہ اسے اپنی بالادستی کے خلاف کوشش سمجھتا ہے اور اسے روکنے میں لگا ہوا ہے جس سے تعلقات میں تنا ﺅپیدا ہوگیا ہے۔امریکہ اور چین کے درمیان عالمی سطح پر سیاسی، سفارتی، معاشی اور عسکری طاقت اور اثرورسوخ میں اضافے اور دوسرے کو محدود کرنے کےلئے مسابقہ جاری ہے۔ اگرچہ بحر ہند اور اس سے پرے چین کا اپنا عسکری اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش بھی دونوں کے درمیان کشمکش کا مرکز ہے اور امریکہ اور چین تائیوان کی آزادی اور سائبر جاسوسی پر بھی سینگ اُڑائے ہوئے ہیں تاہم کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ”آزادی نقل و حمل“ گشت ہیں جو امریکہ اور اس کے اتحادی بحری جہاز آبنائے تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین میں کرتے رہتے ہیں۔آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانی نے بھی پچھلے دنوں امریکہ اور چین کے درمیان زیادہ رابطے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سپر پاورز کے تعلقات میں خرابی کے دنیا کے لئے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔تناﺅ کا ماحول چند روز پہلے دیکھنے میں آیا جب ہفتے کو ایک چینی جنگی بحری جہاز آبنائے تائیوان کے اوپرامریکی جنگی جہاز کے 150 گز تک قریب آیا اور اسے رخ بدلنے اور رفتار کم کرنے پر مجبور کر دیا۔امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے چینی جنگی جہاز کے 'غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ' حربوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ دونوں ممالک کے طیاروں کے درمیان کسی غلطی اور غلط اندازے کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ چین کا بحری جہاز روکنا امریکی اشتعال انگیزی پر ردعمل تھا۔یہ واقعہ اتوار کو چین میں امریکی اور چینی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات، جس میں دونوں فریقین نے بات چیت برقرار رکھنے پر اتفاق کیا، سے عین قبل پیش آیا۔اس سے پہلے مئی کے آخری روز ایک چینی لڑاکا طیارہ بحیرہ جنوبی چین کے اوپر امریکی جنگی طیارے کے مقابل آیا جس پر امریکہ سخت برا فروختہ ہوا۔اس سال فروری میں تعلقات میں کشیدگی تب بڑھی جب امریکہ نے چینی جاسوس غبارے کے امریکی فضائی حدود میں پرواز کے بعد اسے مارگرایا اور امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے چین کا دورہ منسوخ کر دیا۔امریکہ کے خیال میں یہ چین کی”بڑھتی ہوئی جارحیت پسندی“کا ثبوت ہے جبکہ چین کے مطابق بین الاقوامی پانیوں میں دانستہ امریکی فوجی سرگرمیاں اشتعال انگیز ہیں۔چین سمجھتا ہے امریکہ ایشیا میں مداخلت کرکے چین کو محدود رکھنا چاہتا ہے۔ جواب میں چین اپنی بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت اور اقتصادی طاقت کو ایشیا، مشرق وسطی، وسط ایشیا اور افریقہ میں دہائیوں پرانا امریکی فوجی تسلط ختم کے لئے استعمال کر رہا ہے۔امریکہ مشرق وسطی میں فی الحال غالب عسکری طاقت ہے مگر روس اور چین بھی اثر ورسوخ بڑھا رہے ہیں۔امریکہ اسے بین الاقوامی پانیوں میں تمام ممالک کے جہاز رانی کا حق قرار دیتا ہے چین اسے تسلیم نہیں کرتا اور امریکی و اتحادی جہازوں کا پیچھا کرتا ہے۔ امریکہ کی ہیئت مقتدرہ کے خیال میں چین 'معاشی ، سفارتی ، فوجی اور تکنیکی نقطہ نظر سے مستقبل کا ایک ممکنہ حریف ہے تاہم امریکہ چین تعلقات کا بہترین ماڈل وہ ہے جو احترام‘ مفاہمت، تعاون ماحولیات‘عالمی امن‘ تجارت‘ عوامی صحت اور بیماریوں کی روک تھام ، اسلحہ دوڑ میں کمی، جوہری اسلحے کا عدم پھیلا ﺅغیرہ پر مبنی ہو اور اس حقیقت کو قبول کرتا ہو کہ چین امریکہ کا عالمی مقابل اور مخالف بے شک ہے مگر اسے امریکہ کی جناب سے خطرہ یا دشمن سمجھنا بالکل غلط بات ہے۔