طب کا پیشہ ’مقدس‘ کہلاتا ہے اور اِس سے وابستہ ’پیشہ ور افراد‘ سے توقع کی جاتی ہے کہ اُن کا مقصد رنگ‘ نسل‘ جنس اور عمر وغیرہ سے بالاتر اور قطع نظر مریض کا علاج کرنا ہوتا ہے اور ہر انسانی زندگی بچانے کی کوشش ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہونے کی مثالیں ہمیں اردگرد ملتی ہیں جن میں تازہ ترین مثال کراچی کے سرکاری سول سپتال کی سامنے آئی ہے جہاں اُن خواجہ سراو¿ں کو علاج کی سہولت دینے سے انکار کیا گیا ہے جو ایچ آئی وی (ایڈز) سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ معاملہ عدالت عالیہ (سندھ ہائی کورٹ) کے سامنے پیش ہوا جس نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ہسپتال انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ تمام مریضوں کو بلا امتیاز ’مناسب علاج‘ فراہم کرے۔ پاکستان میں خواجہ سرا (ٹرانس جینڈرز) اپنے حقوق کے لئے سرگرداں ہیں اور عمومی و خصوصی حالات میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زیرنظر مذکورہ صورتحال میں ’ایچ آئی وی (ایڈز)‘ کی شدت کم کرنے والی ادویات تو دے دی جاتی ہیں لیکن مسئلہ اور مشکل اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی ٹرانس جینڈر پرسن کو جراحت (سرجیکل علاج) کی ضرورت ہوتی ہے‘ جس سے طبی و معاون طبی عملہ انکار کر دیتا ہے۔ پاکستان میں یہ امتیازی صورتحال اُنیس سو اَسی اور اُنیس سو نوے کی دہائیوں جیسی ہے جب دنیا میں ’ٹرانس جینڈرز‘ سے امتیازی سلوک برتا جاتا تھا۔ حالیہ چند برسوں کے دوران‘ طب کے شعبے میں ہوئی ترقی کی بدولت نہ صرف مختلف قسم کی ادویات اور محفوظ طریقہ¿ علاج ایجاد کیا گیا ہے بلکہ علاج معالجے کے نت نئے ایسے طریقے بھی دریافت کئے گئے ہیں جن سے معالجین مہلک بیماریوں میں مبتلا مریضوں کا علاج معالجہ خود کو محفوظ رکھتے ہوئے کر سکتے ہیں۔ سرکاری علاج گاہوں میں مریضوں سے ’اِمتیازی سلوک‘ بدقسمتی کی بات ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں امتیازی سلوک ختم کرنے کے لئے ہونے والی تمام پیش رفت نفرت و تعصب ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔’ٹرانس جینڈر کمیونٹی‘ کو درپیش مسائل سے معاشرہ بالعموم بے خبر ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ اِن کو خاطرخواہ توجہ نہیں دیتے اور یہ طبقہ اپنے ساتھ ہونے والے اِمتیازی سلوک اور مسائل اُجاگر کرتے ہوئے جن بنیادی انسانی حقوق کا ذکر کرتا ہے اُس میں انسانی ہمدردی‘ مہربانی و احسان کو شامل کر لیا جائے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور ایسا کرنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں ’ٹرانس جینڈرز‘ کو انسان سمجھنا ہوگا۔ یہ کہنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ ’ٹرانس جینڈر کمیونٹی‘ کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے والے اِس بات کا احساس نہیں کرتے کہ غیرمحتاط تبصروں کی وجہ سے اِس کمیونٹی کے لوگ کس طرح خطرات سے دوچار رہتے ہیں اور انہیں بنیادی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ٹرانس جینڈرز کے خلاف غلط معلومات کی وجہ سے اُن پر تشدد اور جان لیوا حملے ہوتے ہیں۔ کسی ڈاکٹر کے لئے مریضوں کا کوئی نام‘ اُس کی کوئی ذات‘ اُس کا کوئی رنگ یا اُس کی جنس معنی نہیں رکھتی بلکہ مریض تو بس مریض ہوتا ہے‘ جسے علاج معالجے کا مساوی حق دیا جاتا ہے اور حکومت کو بھی یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ ٹرانس جینڈرز کے لئے علاج معالجہ اور اُن کی طبی دیکھ بھال کی صورت امتیازی سلوک نہ کیا جائے اور ایسا کرنے والوں کو جوابدہ بنایا جائے۔ صحت کی دیکھ بھال کے مراکز میں اِس طرز عمل کے لئے قطعی طور پر کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان میں ’ٹرانس جینڈر‘ ہونا اِنتخاب نہیں بلکہ قدرتی طور پر تبدیل شدہ جنسی و جسمانی خصوصیات رکھتے ہیں اور ضروری و مناسب ہے کہ ’ٹرانس جینڈرز‘ کو ’کم سے کم‘ انسان سمجھتے ہوئے اُن سے نفرت نہ کی جائے جس کے لئے معاشرے کو ہر قسم کے امتیازی سلوک سے پاک کرنے کے لئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔