چودہ جون ‘عالمی دن 

ہمارے ہاں آج کل کوئی نہ کوئی ڈے منایا جا تا ہے جب کوئی ڈے منا لیا جاتا ہے تو دوسرے دن اس کا چرچا ٹی وی میں سنتے اور دیکھتے ہیں‘ اب چودہ جون ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے ہے‘ مگر کسی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی کوئی دن ہے جو عالمی سطح پر منایا جاتا ہے اسی دن یہ لوگ جاگیں گے کہ بڑے میاں آج چودہ جون ہے آپ کو آج پروگرام کے لئے بطور مہمان بلایا ہے ‘ اتنے شارٹ نوٹس میں ہم کہا ںکہاں جاسکتے ہیں‘ بس جس نے پہلے بلایا ہوتا ہے ہم اسی کی طرف لپک جاتے ہیں‘ کہتے ہیں کہ آپ نے دنیا میں سب سے زیادہ خون کا عطیہ دیا ہے ‘مگر افسوس ا س حوالے سے پرائیڈ آف پرفارمنس پاکستان کا ہمارا ایوارڈ دو تین سالوں سے تعطل کا شکا رہے ‘شکر یہ کہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے میئر نے دو تین سال قبل ہمیںفخرِ پشاور کا ایوارڈ دیا اورپھر ڈپٹی میئر نے چیئر پرسن منزہ ارشدکی سبلائم تنظیم کے تعاون سے پشاور ایوارڈ سے نوازا مگر ملکی طور پر ابھی تک اس کارگزاری کو سراہا ہی نہیں گیا بلکہ خود خون کے محکمے والے کہتے تھے کہ بات تو ٹھیک ہے مگر ہمارا اس کیس سے کیا تعلق ہے ‘کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ لیکن اتنی کوششوں سے کچھ یہ ہوا کہ ہمارانام بھی تزئینِ گلستان کرنے والوں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ چلو یہ بڑی بات ہے‘ایک ہمیں شعر یاد آتے ہیں جس پرہمیں کنٹرول نہیں شعر ملاحظہ فرمائیں او ر ٹھوک بجا کر اس وقت سرِ راہے اور ازراہ تذکرہ راہ میں آن بیٹھا ہے ” ہمارا خون بھی شامل ہے تزئینِ گلستان میں ‘ ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے“۔یہاں تو کتنی بہاریں آئیں اور گزر گئیں کتنے ٹی وی چینلوں نے ریڈیو پاکستان اور ایف ایم ریڈیو کے مختلف چینلوں میں جن میں سرکاری او رنجی دونوں شامل ہیں ہمارے ساتھ پروگرامات کئے مگر کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ ہمارا نام تزئینِ گلستان کرنے والوںمیں شامل فرماتے ۔ٹریفک پولیس کے ایف ایم چینل میں اس حوالے سے ہمیں بلایا گیا مگر اسلام آباد سے ہماری خبر گیری کسی نے نہ کی۔جب کسی قوم کا یہ حال ہو تو بتلائیں کہ اب آگے ہم لوگوں کا کیا حال ہوگا ؟کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اب تو ہر دن منایا جانے لگا ہے ‘ما¶ں کا عالمی دن مدر ڈے کے طور پر منایا گیا‘ پھر فادر ڈے بھی آ گیا ۔اس کے بعد ویلنائن ڈے تو ہے اس میں تو ہم لوگ بہت آگے ہیں ۔ کوئی دن منائیں نہ منائیں مگر یہ دن ضرور منائیں گے ۔کل کو سسٹر ڈے بھی نکل آئے اور برادر ڈے بھی ہوگا‘بیماریوں کے خلاف بھی یہاں مختلف دن منائے جاتے ہیں‘بہت اچھی بات ہے کہ آگاہی ہونا چاہئے مگر کوئی بھی دن منائیں پہلے سے بتلائیں کہ بھائی لوگو ‘فلاں ڈے فلاں دن منایا جا رہا ہے ؛اس کے لئے تیاری کریں۔ بس اخبار میں پڑھتے ہیں کہ گذشتہ روز دن منایا گیا‘ یوں کہنے میں کیا حرج ہے کہ بازار پہ بازار سجے ہیں ۔ مختلف تنظیموں کے حوالے سے مختلف پروگرامات ہوتے ہیں۔این جی اوز ہیں اور ان کو مالی مدد ملتی ہے ۔وہ خانہ پُری کے لئے کوئی نہ کوئی دن آئے دن مناتے رہتے ہیں۔ چلو پھر بھی برا نہیں کچھ نہ کچھ تو آگاہی مل جاتی ہے کہ کون سے دن کیامسئلہ تھا اور ہمیں اس میں کیا کرنا چاہئے۔ ہم تو اپنے ایوارڈ کی فائل جس محکمے کے سیکرٹری صاحب کے پاس لے کر گئے انہوں نے کہا وہ تو ٹھیک ہے آپ نے دنیا میں سب سے زیادہ 143بار خون کا عطیہ دیا ہے مگر بتلائیں کہ اس کیس کا ہمارے محکمے کے ساتھ کیا تعلق ہے‘ بھلا ہو چیف سیکرٹری صاحب کا جنہوں نے اس کیس میں دلچسپی لی اور سیکر ٹری محکمہ صحت کے ذریعے ہم جیسوں کا نام بھی شاملِ فہرست کر دیا گیا ہے‘ہم نے اصل میں سستے بازاروں کے بارے میں قلم آرائی کرنا تھی‘پھر ہمارے قلم کا گھوڑازور زبردستی کہیں اور سمت میں نکل گیا‘ سستا بازاروں کا نام تو بہت سنا تھا مگر اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ ‘اندر تو ہر دکان پر لکھا ہے کہ لوٹ سیل یعنی سستے داموں جو بھی ہے بس لوٹ لو جو بھی دو قبول ہے جو مول تول کرتے ہو آ¶ کرو اور سامان لے جا¶‘سستے بازاروں میںاندر لوٹ سیل کے نام پر ہرچیز کے مقررہ نرخ ہیں جن میں کوئی کمی بیشی کا امکان تو کیا نرخ کے اوپر نیچے ہونے کا گمان تک نہ کریں۔ پہلے اتوار بازار لگا کرتاتھا پھر یہی اتوار بازار اتنا مقبول ہوا کہ جمعہ کے دن اتوار بازار کا سائن بورڈ لگا کر اشیاءبیچی جاتی تھیں‘جوتوں کی سیل ہو یا کوئی اور سیل ہو‘ بس سیر ہے‘ سیل بھی کیا ہے جب پہنچے کہ چلو بچیاں ہیں بچے ہیں کسی کی پونی لیں گے بیس روپے میں کوئی بالوں والا کیپچر لیں گے مگر معلوم ہوا کہ سب کچھ دو سو پچاس میں ہے ‘چھوٹی چھوٹی چیزوں کےلئے بازار پہنچے مگر بڑی بڑی قیمتیں دیکھ کر واپس آ گئے ۔