توانائی بچت : پائیدار راستہ

ملک کو درپیش معاشی و اقتصادی بحرانوں کا حل دستیاب وسائل کی بچت سے بھی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بجلی کی بچت کے لئے روزانہ رات آٹھ بجے تجارتی مراکز بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی ملک گیر سطح پر تاجر تنظیموں نے مخالفت کی ہے۔ تیل کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں اور پاکستان کی معیشت کی کمزوری کے پیش نظر توانائی اصلاحات اور تحفظ کی کوششیں تصور سے لے کر عملی اطلاق تک اپنی ذات میں انتہائی اہم ہیں تاہم تاجروں کا کہنا ہے کہ مجوزہ قبل از وقت بندش سے شاپنگ کے مصروف ترین اوقات متاثر ہوں گے جو عموماً رات آٹھ بجے سے شروع ہوتے ہیں۔ اگرچہ درآمدشدہ ایندھن پر انحصار کم کرنے اور بچت کا ہدف قابل ستائش ہے لیکن اِس کے ممکنہ نتائج (معاشی سست روی) کے حوالے سے تاجروں کے تحفظات پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے۔تاجر تنظیموں کی جانب سے اس فیصلے کی مخالفت قابل فہم ہے۔ فیصلے بامعنی مشاورت اور بات چیت کے ذریعے کسی نتیجے (درمیانی حل) تک پہنچا جا سکتا ہے اور بازاروں کی بندش کے اوقات کو بھی کم زیادہ (ایڈجسٹ) کیا جا سکتا ہے۔ اِس حوالے سے جب تاجر تنظیموں سے بات کی گئی تو وہ بھی ’توانائی بچت‘ کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اِس ہدف و مقصد کے حصول کے لئے ’متبادل اقدامات‘ کی تجاویز دیتے ہیں۔ حکومت کے لئے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پریشان کن ہیں جبکہ زرمبادلہ کے کم ذخائر کی وجہ سے درآمدات کم کرنے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ ایسی صورتحال میں جبکہ معیشت خطرات کے گھیرے اور معیشت ناتواں دکھائی دے رہی ہے تو دانشمندی اِسی میں ہے کہ ’توانائی کا تحفظ‘ کیا جائے اور توانائی کی بچت کو اہم سمجھتے ہوئے اپنے اپنے مفادات اور آسائشوں کی قربانی دی جائے۔ قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کو تبادلہ¿ خیال کے ذریعے تاجروں اور عوام کو قائل کرنا چاہئے تاکہ درپیش چیلنجوں سے اجتماعی طور پر نمٹا جا سکے۔ نئے مالی سال (دوہزارتیئس چوبیس) کے بجٹ میں توانائی اصلاحات کو بطور خاص توجہ دی گئی ہے اور اِس میں شمسی توانائی (سولر سسٹم) پر عائد درآمدی ٹیکس معاف کئے گئے ہیں لیکن ضرورت قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لئے مالی وسائل کی فراہمی اور ایک عام آدمی کو سولر سسٹم لگانے کے لئے آسان شرائط اور بلاسود قرض بھی دینے چاہئیں۔ اگر ایسا کر لیا جاتا ہے تو کاروباری و تجارتی مراکز میں استعمال ہونے والی بجلی کا بوجھ بجلی کے قومی پیداواری نظام سے الگ ہو جائے گا اور یہی حکومت چاہتی ہے کہ بجلی کے نقصانات کم کرے لیکن اِس کے لئے شمسی توانائی کو فروغ دینا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے کہ توانائی اصلاحات کے حوالے سے ’سٹیک ہولڈرز‘ کے خدشات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے۔ ماہرین‘ صنعتی نمائندوں اور عام آدمی (ہم عوام) کی آرا¿ و تجاویز کی روشنی میں جامع فیصلہ سازی ہونی چاہئے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو توانائی کی بچت کے اقدامات کا مو¿ثر نفاذ ممکن ہوگا۔ وقت ہے کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب پورا کرنے کے لئے پائیدار و متبادل توانائی کے متبادل ذرائع تیار و تلاش کئے جائیں اور طویل مدتی منصوبہ تیار کیا جائے۔ توانائی کے تحفظ اور درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنے کی سوچ اور مقصد قابل ستائش ہے تاہم توانائی کے تحفظ کو اقتصادی افادیت کے پیرائے میں بھی دیکھنا ضروری ہے۔ ایک طرف مہنگائی و بیروزگاری ہے اور اگر ایسی صورت میں کاروباری سرگرمیاں بھی محدود کر دی گئیں تو اِس سے عام آدمی (ہم عوام) کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ حکومت اور عوام کے درمیان بات چیت کے ذریعے توانائی کے قابل عمل متبادل ذرائع پر غور اور مو¿ثر مواصلات کی صورت ’اتفاق رائے‘ انتہائی ضروری ہے اور اِسی کی بدولت ملک میں توانائی کی بچت کا ’پائیدار راستہ (لائحہ عمل)‘ تلاش و تخلیق کیا جا سکتا ہے۔دیکھا جائے تو اس میں حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ عوام کی شمولیت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ ہم میں سے ہر کوئی اگر توانائی کے استعمال کے حوالے سے کفایت شعاری کا مظاہرہ کرے تو اس کے نہایت ہی مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔