’منافع خوری‘ اور ’ناجائز منافع خوری‘ کے درمیان بہت ہی ’باریک سا فرق‘ ہے اور عموماً اِس بظاہر معمولی فرق کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے یا خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جاتی لیکن اِس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ مہنگائی جو پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے‘ ایک عام آدمی (صارف) کے لئے مشکلات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ ’منافع خوری‘ و ’ناجائز منافع خوری‘ اور ’مہنگائی‘ و ’مصنوعی مہنگائی‘ کی وجہ سے معاشی صورتحال بہتر بنانے کی حکومتی کوششیں اور تمام تر منصوبہ بندی ناکام ہو رہی ہے دوسری اہم بات ہے کہ یقیناً محصولات (ٹیکسوں) کی شرح میں اِضافے سے قومی آمدنی بڑھی ہے لیکن یہ اضافہ اِس قدر نہیں کہ حکومت کی آمدن و اخراجات میں توازن پیدا ہو سکے اور اِس قومی آمدنی سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ جن ٹیکسوں سے حکومت کی آمدنی بڑھی ہے اُس کی ادائیگی کرنے والے عام آدمی (ہم عوام) کو بنیادی ضروریات پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے یعنی حکومت کی آمدنی تو بڑھ گئی ہے لیکن ’ہم عوام‘ کی قوت ِخرید میں ہر دن کمی ہو رہی ہے اور ایک ایسی صورتحال کہ جس میں روزگار کے خاطرخواہ مواقع بھی دستیاب نہ ہوں اور حکومت کی جانب سے بیروزگاروں کے لئے وظیفہ (سوشل سکیورٹی) بھی موجود نہ ہو تو ’ناجائز منافع خوری‘ سے جنم لینے والی ’مصنوعی مہنگائی‘ ستم بالائے ستم ملک کی اکثریتی آبادی کے لئے معاشی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔ عوام کے مفاد کا تحفظ کرنے کے لئے ’مصنوعی طور پر مہنگائی‘ کا سبب بننے والے جملہ محرکات کی اصلاح ضروری ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے ’ضلعی انتظامیہ (ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن)‘ کا کام شروع ہوتا ہے کہ وہ صرف قانون و قواعد ہی نہیں بلکہ حکمت و تدبر سے بھی کام لیں کیونکہ ہر روز آٹھ دس ناجائز منافع خوروں‘ ملاوٹ اور کم تولنے والوں کو پکڑنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا‘ ضلعی انتظامیہ حکومت کے ہاتھ پاو¿ں ہوتی ہے جنہیں دیکھنا چاہئے کہ اگر صوبائی دارالحکومت (پشاور) کی صورتحال یہ ہے کہ بار بار گرفتار و جرمانہ ہونے والے بھی ناجائز منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ دھوکہ دہی اور کم تولنے جیسے جرائم کے ارتکاب سے باز نہیں آتے جن کی واجبی سی سزائیں رکھی گئی ہیں تو خیبرپختونخوا کے دور دراز کے اضلاع کی صورتحال کس قدر خراب (ناگفتہ بہ) ہو گی! ’ناجائز منافع خوری‘ کے جملہ محرکات کا سدباب اور اِس کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے تو وقت ہے کہ مختلف طریقے آزمائے جائیں تاکہ معاشی مشکلات کا سامنا کرنے والوں کے لئے مزید مشکلات پیدا کرنے والوں کو اپنا طرز ِفکر و عمل تبدیل کرنے پر اخلاقاً مجبور کیا جا سکے۔ ناگزیر حد تک ضروری ہو چکا ہے کہ اصلاح بذریعہ قانون و طاقت اور سزاو¿ں کے ذریعے سے کی جائے بلکہ اِصلاح کے کئی مہذب و منظم اور پائیدار طریقوں میں یہ ’حکمت ِعملی‘ بھی شامل ہونی چاہئے کہ اخلاقی و مذہبی اقدار و تعلیمات کے ذریعے متوجہ کیا جائے‘ یعنی ایسی ترغیب جس سے ’کردار و عمل‘ میں بہتری آئے۔ صرف پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کی ہر ضلعی انتظامیہ کے پیش نظر یہ ’ہدف‘ ہونا چاہئے کہ اَشیائے خوردونوش میں ملاوٹ‘ کم تول اور معیاری و غیرمعیاری اَشیاءو اجناس کے زیادہ دام وصول کرنے والے اپنے آپ (اَز خود) اپنے عمل سے رجوع کر لیں‘ حدیث نبوی ہے کہ ”کامل ایمان رکھنے والے کو چاہئے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی وہی (کچھ) پسند کرے‘ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے“ مذکورہ حدیث مبارکہ میں ’پسند‘ کے معنی یہ ہیں کہ اُن تمام دینی و دنیاوی امور میں دوسروں کے لئے خیر خواہانہ رویہ رکھا جائے بایں طور بھلائی کی نشاندہی اور اُس کی طرف دوسروں کی شائستگی کے ساتھ رہنمائی کی جائے جو امر بالمعروف و نہی المنکر کی ذیل میں بھی آتا ہے۔مشکلات کے دور میں حتی الوسع آسانیاں پیدا کرنے کی کوششیں کرنا بھی نیکی اور یہ خاص طرزعمل ’ایمان‘ کی علامت قرار دیا گیا ہے تو وقت ہے کہ خود اِحتسابی سے کام لیتے ہوئے ہم میں سے ہر شخص‘ فرداً فرداً‘ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھے‘ ضمیر کی عدالت سے فیصلہ لینے میں تاخیر نہیں ہوتی ۔