مالی سال دوہزارتیئس چوبیس کے بجٹ میں زرعی شعبے کی پیداواری صلاحیت بڑھانے اور زرعی صنعت میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے متعدد مراعات کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ وفاقی بجٹ میں اعلان کردہ اقدامات و اصلاحات اور بالخصوص ترقیاتی منصوبوں میں کسانوں کے لئے زرعی قرضوں میں نمایاں اضافہ گیا گیا ہے۔ زرعی شعبے کے لئے ایک اعشاریہ آٹھ کھرب روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں پچاس ارب روپے کی لاگت سے پچاس ہزار ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا۔ اِسی طرح بیج کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کرنا اور کمبائن ہارویسٹرز کی درآمد پر ڈیوٹی میں چھوٹ بھی بجٹ میں شامل کی گئی ہے۔ بجٹ میں رائس پلانٹرز‘ سیڈرز اور ڈرائرز پر ڈیوٹز ختم کرنے کے علاوہ رعایتی قرضوں اور زراعت پر مبنی صنعتوں کے لئے ٹیکس ریلیف کی صورت پچاس ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ظاہری طور پر‘ یہ تمام اقدامات اہم ہیں اور اُمید ہے کہ اِنہیں عملی جامہ پہنایا جائے گا جن کا بنیادی مقصد زراعت سے وابستہ محنت کشوں کی توقعات کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش ہے۔ وفاقی بجٹ میں زراعت سمیت جن شعبوں کے لئے ترقیاتی اقدامات اعلان کئے گئے ہیں اُن میں اگر نصف پر بھی عمل درآمد ہوا تو اِس سے زرعی شعبے کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئے گی تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا ان اقدامات کا کسانوں‘ خاص طور پر چھوٹے کاشتکاروں کی زندگیوں پر معنی خیز اثر پڑے گا یا نہیں اور نہ ہی یہ بات واضح ہے کہ آیا وہ فصلوں کے پیداواری اخراجات (ان پٹ کی بڑھتی ہوئی لاگت)‘ آب و ہوا کی تبدیلی‘ پانی کی قلت وغیرہ جیسے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لئے مو¿ثر ثابت ہوں گے جن کی وجہ سے زرعی شعبہ کو خسارے کا سامنا ہے اور معیشت کا ایک حصہ ’ویلیو ایڈیشن‘ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ زراعت اِس لئے بھی ضروری ہے کہ اِس کا قومی معیشت پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر اثر ہوتا ہے اور یہ ملک کی کل آبادی کے دو تہائی حصے کے لئے معاش کا ذریعہ ہے۔ زراعت معیشت کا ایک بڑا اور متنوع حصہ ہے جو ماضی میں نظر انداز کیا جاتارہا ہے۔ زرعی مسائل اتنے پیچیدہ ہیں کہ بجٹ میں اعلان کردہ مراعات کے ذریعے اِن سے نمٹا نہیں جا سکتا۔ ملک میں بھوک و افلاس کی سطح سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے گلوبل ہنگر انڈیکس نے سنگین قرار دیا ہے اور گزشتہ سال موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والے سیلاب کی وجہ سے فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے‘ ایسے میں روایتی زرعی پالیسیوں پر ازسرنو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ مطالعے و مشاہدے سے عکاسی ہو رہی ہے کہ ماضی میںزرعی پالیسیاں بڑے جاگیرداروں اور مڈل مین کے مفادات کا تحفظ کرتی رہی ہیں۔ یہ ماضی کی پالیسیاں دیہی غربت‘ فصلوں کی قیمت میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی غذائی عدم تحفظ کی اہم وجوہات ہیں۔موجودہ حکومت نے زراعت کی اہمیت کے پیش نظر جو اقدامات کئے ہیں اس کے بعد یقینا صورتحال میں مثبت تبدیلی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ کسی بھی حکومتی پالیسی کا پہلا باب ’زرعی شعبے‘ کی اصلاح و تبدیلی ہوتی ہے اور اس سلسلے میں چھوٹے کاشتکاروں کو فائدہ پہنچا نا لازمی ہے۔ وقت ہے کہ ’زرعی تحقیق‘ اور ’زرعی علوم‘ میں سرمایہ کاری کی جائے۔ کوآپریٹوز کی تشکیل اور ٹیکنالوجیوں کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنے اور آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے عملاً اقدامات ہونے چاہئیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کی سستے اور سود سے پاک قرضوں تک رسائی بڑھانے‘ انہیں فصلوں کا بیمہ دینے اور مڈل مین کا کردار ختم کرنے کے لئے انہیں منڈیوں سے جوڑنے کے لئے پروگرام بھی تیار کرنے چاہئیں‘ اس طرح چھوٹے کاشتکاروں اور مزدوروں کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ ترقی یافتہ زرعی شعبہ ہی معاشی ترقی کا ضامن ہوتا ہے اور معاشی ترقی غربت کے خاتمے میں بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ایسا کرنے کے لئے پالیسی سازوں کو زراعت جیسے ’اہم شعبے‘ کو توجہ دینا ہوگی جو غذائی خودکفالت اور روزگار کے مواقعوں میں اضافے جیسے امکانات بھی رکھتا ہے اور اِسی زرعی شعبے کی کارکردگی سے مہنگائی کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔