جی چاہتا ہے کہ موٹر سائیکل چلانے والوں کے لئے ایک ہدایت نامہ لکھوں۔ جو پانچ سو صفحات پر مبنی ہو۔ جس میںقسم قسم کی اور ہر قسم کی ہدایت موجود ہو۔ کیونکہ میں بھی روزانہ موٹر سائیکل اٹھائے سڑکوں پر خوار بلکہ خوار و زار ہوتا رہتا ہوں ۔ سب کھیل تماشے میرے آنکھوں کے سامنے ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے غالب کا شعر دہرانے میں باک نہیں کہ ” بازیچہ ¿ اطفال ہے دنیا میرے آگے۔ ہوتاہے شب وروز تماشا مرے آگے“۔اگرچہ کہ ہم خود بھی بچے بن جاتے ہیں او رکبھی کبھی دوسری گاڑیوں حتیٰ کہ ٹرک کو بھی ٹھوک دیتے ہیں۔ اب ننھی چیوٹنی اگر ہاتھی کو ٹھوک بجا کر روندنے کی کوشش کرے تو اس کا انجام تو آپ سے زیادہ کس کو معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ بھی تو روزانہ کے ان سڑکوں کے راہی ہیں۔ اگر ازخود اپنی سواری پر سوار نہیں تو سواری بن کر دیکھتے ہوں گے کہ یہاں ڈرائیوونگ کے نام پھر کیا کچھ غلط ہو رہا ہے۔ جب سے خود چوٹ کھائی ہے پہلے تو محتاط تھے مگر اب کچھ زیادہ ہی احتیاط لازم کر رکھی ہے ۔مگر کبھی کبھی دوبارہ سے بڑے میاں کو جوش آنے لگے تو اپنے ساتھ ہوئے حادثات یادآنے لگتے ہیں ۔ سو فوراً سے پہلے سپیڈ کو آہستہ کرلیتے ہیں۔ بائیں طرف ہو کر چلتے ہیں پہلے تو ہمیں کوئی ہارن دیتا کہ آگے سے ہٹو تو ہم اس کی جان کو آ جاتے تھے مگر جب سے ایک سوراخ سے ڈس کر ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ پہنچے تو اب احتیاط لازم ہے ۔ کیونکہ بائیک کی بہت زیادہ رفتار بھی ہو تو چالیس سے زیادہ تیز جانے کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی ۔مگر اپنے ایسے بھائی ہیں کہ اسی کی رفتار سے موٹر بائیک چلاتے ہیں او روہ بھی سی ڈی سیون ٹی کو دوڑاتے پھرتے ہیں ۔ مگر ہم تو جیسے بکری پر سوار ہوں اور اس کو کانوں سے پکڑا ہوا ہو یوں بائیک پرگھومتے ہیں ۔ویسے بائیک والوں کو نہیں چاہئے کہ کسی بھی گاڑی کے رائٹ پر چلیں۔ رائٹ پر چلنے کے لئے عین سڑک کے درمیان میں بڑی گاڑیوں کا رائٹ ہے کہ وہ اپنا حق دھڑلے سے استعمال کر سکتے ہیں ۔ مگرہماری بھائی بند تو خوب فراٹے بھرتی ہوئی بائیک پر رائٹ سے دوڑکر جاتے ہیں نہ ان کو ماں باپ کا خوف ہوتا ہے کہ اگر ہم خدا نخواستہ حادثے کا شکار ہوگئے تو ماں باپ کیا کریں گے اور نہ ہی ان کو پولیس کا ڈر ہوتا ہے۔پھرجان کو ہتھیلی پر رکھ کر ان کو اپنی ہی موت کا غم ہوتا ہے کہ وہ اگر نہ رہے تو کیا ہوگا۔ بائیں رہنا موٹر بائیک والوں کا فرض ہے او رچالیس کی سپیڈ ہو۔ کیونکہ بڑی گاڑی آپ کو کبھی بھی بائیں ہاتھ سے اوور ٹیک نہیں کرے گی۔ بڑی گاڑی دائیں طرف سے آگے جائے گی اور آپ کو اگر کوئی بائیں جانب سے کراس کرے گا تو وہ بائیک والا ہی ہوگا جب سے خود پر گزری ہے بچوں کو ہدایت دیتے رہتے ہیں کہ بیٹا اگر ٹرک کو دور سے بھی دیکھو تو ایک طرف ہو جا¶ اور پیچھے سے ہارن بجائے تو اس کو فوراً سڑک پر راستہ دو۔ کیونکہ بائیس ٹائروں والے ٹرک کو تو خود اپنے آگے پیچھے کا پتا نہیں ہوتا کہ کون ہمارے ٹرالر کے نیچے آیا ہے ۔ایسے میں ان ہاتھیوں کے سامنے موٹرسائیکل کی حیثیت تو چیونٹی کے برابر بھی نہیں ہوتی ۔بچوں سے کہتے ہیں کہ ٹرک کی ٹکر سے اپنے آپ کو بچانا او ردوسرے نمبر پر پانی کے چکر سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ۔ورنہ کسی اور کی کیا مثال سامنے رکھو گے۔ وہ ایبٹ آباد کے سلطان سکون کا شعر ہے کہ ” کسی کو عشق کے انجام سے ڈرانا ہو ۔تو اس کے سامنے میری مثال رکھ دینا “ ۔ہماری ہی مثال سامنے رکھ لو۔لگ بھگ انھی احتیاط سے بھرپور خیالات کا اظہار چوک ناصر خان کے فضلِ معین ارباب نے ہماری عیادت کو جب آئے تو کیا ۔ مگر بچے او رجوان بچے کب سنتے ہیں ایک کان میں ڈال کر دوسرے سے نکال لیتے ہیں۔کیونکہ ٹرک کی ٹکر سے بائیک سوار ہماری طرح مفت میں وہ دور جا کر گرے گا اور پھر اس کے ارد گرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو جائے گا۔ موٹر سائیکل والے جو بھی ہوں ان کے ساتھ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی حادثہ ہوچکا ہوتا ہے ۔کہیں بہت خطرناک اور کہیں ہلکا پھلکا سا ۔ قصور جس کا بھی ہو موٹر سائیکل والے ہی کو لگتی ہے۔اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دونوں صورتوں میں کہ بائیک پر آپ کسی کو ٹکر ماردیں یا خودآپ کو کوئی دھکا لگا دے نقصان بائیک والے ہی کاہوتا ہے ۔