خبرآئی ہے کہ نوجوان نے اپنی بے روزگاری سے تنگ آکر زندگی کا خاتمہ کردیا‘چھوٹی سی خبر اخبار میں دوکالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوئی ہے خبر میں بتایا گیا ہے کہ نوجوان بے روزگار تھا ماں باپ طعنہ دیتے تھے کہ اتنا سارا پیسہ خرچ کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار پھررہا ہے بہن بھائی پوچھتے تھے کب روزگار ملے گا؟ان سوالات سے تنگ آکر وہ اس اقدام پر مجبور ہوا اس واقعہ کی رپورٹ اخبارات میں لگی ‘مگر ایسے واقعات ہوتے ہیں تو عبرت لینے والے منظر سے غائب ہوجاتے ہیں عموماًلوگ ایسے ناخوشگوار واقعات کی ذمہ داری روزگار دینے والے اداروں پرڈال دیتے ہیں 1989ءمیں ایک صوبائی وزیر اعلیٰ ایک بڑے ضلع کے دورے پرگیا اس دورے میں جن وفود کے ساتھ وزیراعلیٰ کی ملاقات طے کی گئی تھی ان میں بے روزگارگریجویٹس کا وفد بھی تھا وزیراعلیٰ نے خفیہ اداروں کے ذریعے وفد کے سربراہ اور دیگر ارکان کا تعارفی خاکہ تیار کروایا تھا
وفد کا سربراہ انجینئر تھا اور بڑے این جی او میں نوکری کرتا تھا وفد کے10اراکین پرائیویٹ ہسپتالوں اور کالجوں میں نوکری پرلگے ہوئے تھے وزیراعلیٰ نے ان سے پوچھا کہ تم میں سے کوئی بھی بے روزگار نہیں ہے پھر تم نے اس نا م سے ایسوسی ایشن کیوں بنائی ہے؟وفد کے سربراہ نے کہا ہم سب انڈر ایمپلائیڈ ہیں ڈگری کے مطابق سرکاری روزگار ہمیں ملنا چاہئے یہ ہمارا حق ہے وزیراعلیٰ نے کہا میں تمہاری خدمت کےلئے تیار ہوں لیکن تم اپنی غلط فہمی دور کروگریجویٹ ہونے کا مقصد نوکر بننا نہیں بلکہ باشعور اور کارآمدشہری بننا ہے روزگار کے اور بھی بے شمار دروزاے ہیں ‘وزیراعلیٰ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ٹائمز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں 75فیصد نوجوانوں کو نجی شعبے میں روزگار ملتا ہے اس لئے نوجوانوں کی پہلی ترجیح بھی یہ ہوتی ہے کہ روزگار کےلئے نجی شعبے سے رجوع کیا جائے جن نوجوانوں کے پاس غیر معمولی قابلیت اور صلاحیت ہوتی ہے وہ اپنا کاروبار شروع کرتے ہیں اور دوسرے نوجوانوں کو اپنے ہاں روزگار پرلگاتے ہیں سرکاری نوکری کونوجواں پسند نہیں کرتے یہ ان کی ترجیحات میں آخری نمبر پرہوتی ہے۔وفد کے ارکان نے باہر آکر دوستوں کوبتایا کہ وزیراعلیٰ نے روزگار دینے کے بجائے نصیحتیں کرکے ہمیں رخصت کیا ہے ‘یہ غلط ترجیحات نوجوانوں کے ذہنوں میں پالیسی سازوں کے فیصلوں کی وجہ سے جگہ پاتی ہیں چین،جاپان اور کوریا میں70فیصد طلباءاور طالبات کو میٹرک کے ساتھ فنی تعلیم دی جاتی ہے۔وہ20سال کی عمر میں کارخانوں کے اندر کام پرلگ جاتے ہیں اور ملک کی ہنرمندافراد ی قوت میں شامل ہوجاتے ہیں صرف30فیصد گریجویشن کرتے ہیں چنانچہ وہاں کوئی
بےروزگار نہیں خدا بخشے ہمارے استاد ڈاکٹر محمدانور خان مرحوم کہا کرتے تھے کہ ڈبل ایم اے ٹرپل ایم اے ہونا کوئی قابلیت نہیں یہ نالائق ہونے کی نشانی ہے اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ تم نے ایم اے کیا کچھ نہ ملا پھر ایم اے کیا کچھ نہیں ملا پھرایم اے کیا اب پوری عمر جوتے چٹخاتے پھروگے قابلیت یہ ہے کہ تم نے میٹرک کے ساتھ فنی تعلیم حاصل کی اس بنیاد پر کام شروع کیا اور معاشرے کےلئے ،خاندان کےلئے ،ماں باپ کےلئے مفید انسان بن گئے خدا کرے تمہیں کبھی ڈبل اور ٹرپل ایم اے کرنےکی ضرورت نہ پڑے‘ 1973ءمیںایک پالیسی بنی تھی جس کے تحت ہائی سکول میں ترکھان ،مستری،الیکٹریشن ،موٹر مکینک ، زرعی مہارت کے سپیشلسٹ وغیرہ تیارکرنے کےلئے ورکشاپ ،اساتذہ اور سامان تدریس مہیا کیے جاتے تھے‘1979ءمیں اس پالیسی کوختم کیا گیا ‘اکیسویں صدی میں قوم کے نونہالوں کو اس قسم کی پالیسی چاہئے جوافرادی قوت مہیا کرے‘ بے روزگار گریجویٹ پیدانہ کرے بے روزگار کیوں؟اہم سوال ہے‘ اس کا جواب یہ ہے کہ قدم قدم پر پالیسی اور فیصلہ سازی کی ناکامی آڑے آتی ہے۔