پاکستان میں نظام تعلیم صرف اُردو اور انگریزی میڈیم اداروں ہی میں تقسیم نہیں بلکہ اِس کا تعلق سہولیات اور معیار سے بھی ہے‘ ایک طرف ایک ایسے سرکاری سکول ہیں جہاں بنیادی سہولیات میسر نہیں تو دوسری طرف ایسے نجی تعلیمی ادارے ہیں جہاں طلبہ سردی گرمی سے محفوظ آرام دہ کلاس رومز سے استفادہ کرتے ہیں‘ کم آمدنی اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والا طبقہ تپتی دھوپ میں انتھک محنت کرتا دکھائی دیتا ہیں تاکہ اپنے اہل خانہ کی بنیادی ضرورت اور کفالت کر سکیں‘ یہ صورتحال کس قدر گھمبیر ہے اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیونکہ خود حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں کم از کم تین لاکھ بچے ’چائلڈ لیبر‘ نامی شیطانی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں‘ وہ بچے جنہیں تعلیم حاصل کرنا چاہئے وہ زراعت سے لےکر گھریلو ملازمین جیسے کردار نبھا رہے ہیں اور مجبور ہیں کہ اشرافیہ کے گھروں میں کام کاج کریں جہاں اِن کےساتھ غلاموں کی طرح غیرانسانی سلوک کیا جاتا ہے اور بااثر افراد کے ہاں اِن گھریلو ملازمین کےساتھ ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے اکادکا واقعات منظرعام پر آنے کے باوجود اِن کےساتھ انصاف نہیں ہو رہا‘ یہ مبالغہ آرائی نہیں کیونکہ ہمارے اردگرد ایسی متعدد مثالیں پھیلی ہوئی ہیں جن میں گھریلو ملازمین کو اُن کے آجروں نے اِس حد تک جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ معذور ہو گئے چائلڈ لیبر‘ کےخلاف عالمی دن کے موقع پر‘ مختلف قسم کی تقاریب کا انعقاد ہوا مقررین نے بچوں کے حقوق سے متعلق ملکی و عالمی قوانین و قواعد کا حوالہ دیا جبکہ حکومتی ادارے جو کہ بچوں کے حقوق سے متعلق موجودہ خراب صورتحال کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ایسے اقدامات نہیں کئے جاتے جن سے بچوں کی زندگی میں خاطرخواہ تبدیلی آئے۔ توجہ طلب ہے کہ غربت اور حکومتی امداد کی کمی جیسے عوامل لوگوں کو اپنے جگرگوشوں کو کام کاج پر بھیجتے ہیں‘ ایک ایسے ملک میں جس نے آزاد منڈی کی معیشت کے اصولوں کو قبول کیا ہے لیکن کم آمدنی رکھنے والے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے والدین کو ہر روز کسی نہ کسی مشکل کا انتخاب کرنا پڑتا ہے‘ ایک ایسی صورتحال جس میں ایک طرف بچوں کو کھانا کھلانا ہو اور دوسری طرف اُن کے تعلیمی اخراجات ہوں تو والدین کےلئے انتخاب مشکل ہو جاتا ہے! چونکہ تعلیم کے معاملے میں حکومت کی طرف سے خاطرخواہ مراعات نہیں دی جا رہیں اور چونکہ نجی سکولوں کے عروج نے زیادہ تر سرکاری شعبے کے سکولوں کو غیر ضروری بنا دیا ہے اور والدین اپنا پیٹ کاٹ کر یا پھر زیادہ مزدوری کر کے اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہے ہیں‘ کیا یہ بات تعجب خیز نہیں کہ بچوں کی بہتر پرورش کرتے ہوئے ایسے والدین بھی ہیں جو خالی پیٹ سو جاتے ہیں! ملک میں سڑکوں پر بھیک مانگنے والے انتہائی منظم نیٹ ورک کی جانب سے بچوں کی اسمگلنگ اور اغواءجیسے جرائم کی کہانیاں اکثر منظرعام پر آتی رہتی ہیں لیکن اِن پر چند دن بحث کر کے میڈیا بھی خاموش ہو جاتا ہے اور سرکاری حکام بھی ایسے خلاف قانون واقعات کا خاطرخواہ نوٹس نہیں لیتے‘ چائلڈ پروٹیکشن ایجنسیوں ‘ خدمات کی کمی‘ کفالت پروگرام وغیرہ کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہو رہے‘وقت ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سماجی بہبود کے پروگراموں کی مالی امداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ غریب لوگوں کو اپنے بچے کام کاج پر نہ بھیجنا پڑیں‘ ایسے منظم گروہوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے جو بچوں کو بھیک مانگنے کےلئے استعمال کرتے ہیں اور بچوں کا استحصال کرتے ہیں۔ حکومت اور قانون کو بچوں کے ساتھ ناانصافی کے واقعات اور بچوں کو استعمال کرنےوالے منظم گروہوں کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے۔