رات دن فرصت کے 

 اگر کہیں گلی محلے میں اینٹوں کا ڈھیر لگا ہو اور اس کی سینچائی کرنا ہو تو اینٹوں کو پانی دینے کے اس عمل کے لئے کوئی مزدور رکھنے کی ضرورت نہیں۔بس صرف کسی ایک سے کہہ دیں کہ یار اینٹوں کو پانی دینا ہے ۔وہ اگر نہیں تو کوئی اور فارغ انسان یہ سن کر آگے بڑھ کر آپ کی تعمیر و مرمت کے اس کام میں اپنی خدمات مفت میں دینے کی پیشکش کرے گا‘کہے گا حاجی صاحب نلی میرے حوالے کر دیں میں جانوں میرا کام جانے ‘آپ اندر جاکر پانی کا پائپ باہر نکال لائیں گے اور پیچھے بور کی مشین آن کر دیں گے ۔اصل میں بندہ اپنے آپ کو مصروف رکھنا چاہے تو بعض اوقات ٹینشن بن جاتی ہے کہ کہاں مصروفیت ڈھونڈے بلکہ آج کل تو پریشانی اور ٹینشن کو دور کرنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ بندہ کوئی نہ کوئی مصروفیت مفت میں اختیار کرے یا مزدوری لے کر مول لے یا پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مصروفیات بھی خریدنے سے ملتی ہوں تو جیب سے رقم دے اور اپنے لئے مصروفیت کا سامان ڈھونڈے ۔ہمارے ہاں اکثر لوگ ریٹائر نہ بھی ہوں تو دفتری اوقات کے بعد اپنے لئے مصروف رہنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتے ہیں اور یہ بہت زیادہ اچھی بات ہے کیونکہ خالی الذہن ہونے سے دماغ کو بیماری لاحق ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ آج کل کوئی بھی ہو سوچ بچار سے خالی نہیں ہے ‘کسی کوکیا اور کسی کو کیا پریشانی لاحق ہے۔اس لئے بندوں نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے نت نئے بہانے بنا رکھے ہوتے ہیں۔ میں بتلا¶ں سب سے بڑی دل چسپی یہ موبائل ہے جو فراغت میں آدمی کو اتنا مصروف رکھتا ہے کہ اس کو کسی طرف کا ہوش ہی نہیں رہتا۔ گھر کے کام کاج سودا سلف سر کھا جاتے ہیں مگر لڑکا ہے یا سینئر ہے موبائل میں جو گھسا ہوا ہے تو اس کو کسی طرف کا دھیان ہی نہیں رہتا ۔کسی نے اپنے یاروں دوستوں کی منڈلی سجا رکھی ہوتی ہے وہاں تاش کی بازی یا لڈو کی بازی چل رہی ہوتی ہے۔کوئی گالف کھیلنے کو جاتا ہے کوئی ضروری تو ہے مگر غیر ضروری طور پر واک کرتا ہے او رکچھ زیادہ ہی پیدل گھوم لیتا ہے ۔ پھر اتنا کہ گھرمیں اس کی ضرورت پڑتی ہے مگر صاحب گھر پر نہیں ہوتے۔ اگر صاحب ملازمت سے فارغ ہیں تو ان کے لئے تو اس سے زیادہ مواقع ہوتے ہیں کہ وہ فرصت کے لمحات میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں ۔اگر کوئی پروفیسر ہے یا سکول ‘کالج یونیورسٹی کی نوکری سے فراغت حاصل کئے ہوئے ہے تو اس کے بہت سے مشاغل ہوتے ہیں جن کا تعلق کتاب اور پڑھنے لکھنے سے ہوتا ہے وہ تو از خود مصروف رہتا ہے یا خود کو مصروف ہی رکھتا ہے ۔وہ اگر شاعرو ادیب ہے‘ اخبار کا مضمون نگار ہے تو اس کو تو چھیڑنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ وہ از خود بغیر کوشش کئے مصروف رہے گا۔کبھی کتاب پڑھ رہا ہے اور کبھی پڑھا رہا ہے ‘لیکن باقی ملازمتوں کے فراغت کنند گان تو اپنے لئے جان کر بھی مصروفیت ڈھونڈتے ہیں کہ فارغ آدمی گھر میں بیٹھ کرگھر والی سے ہمہ وقت جھڑپوں میں مصروف رہتا ہے ۔یہ جھاڑو لگانا وہاں سے کیوں شروع کیا ہے پہلے قریب کا گند گریل تو صاف کر لو ۔ اس بات پر دونوں الجھ جاتے ہیںاور اتنا الجھتے ہیںکہ جیسے دو بارہ سنگھے اپنے سینگ ایک دوسرے کے سر میں پھنسا لیتے ہیں۔چلو یہ بھی ایک طرح کی مصروفیت ہوئی کہ اس کشاکش میں دو ایک دن گزر جاتے ہیں۔ سرد جنگ کے اثرات گھر تک یوں سایہ فگن ہوتے ہیںکہ صاحب گھر سے نکل جاتے ہیں اور دو ایک دن زیادہ تر باہر دوستوں کے ساتھ گزارتے ہیں دوست بھی ان کے اس زیادہ آنے جانے کو مشکوک نگاہ سے دیکھتے ہیں یار ہمارا گھرسے شاید لڑکر آیاہواہے بعض صاحبان نے گھر میں پہلے ہی سے جب ان کی ملازمت کی فراغت کے سال دو سال باقی ہوتے ہیں ۔گھر میں باغ بانی کاڈول ڈالتے ہیں اور بعض گا¶ں کے مکین مرغ بانی کا ڈول ڈالتے ہیں۔ وہ گھر میں قیمتی گملے لا کر رکھ دیتے ہیں اور ان کی سینچائی کو ہمہ وقت ان کے ہاتھ میں پانی کا پائپ تھاما ہوتا ہے اور مشین کی بجلی ضائع ہو رہی ہوتی ہے کیونکہ وہ گملوں کو پانی دے کر پورے فرش کو بھی ساتھ دھو ڈالتے ہیں۔پانی کا زیاں الگ ہو تا ہے مگر ان کو غم نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو پہلے ہی سے بے غم ہو چکے ہوتے ہیں ۔ پھر وہ صاحبان جو شہر میں سرکاری بنگلوں کے مکین تھے ملازمت سے پیچھا چھڑوا کر گا¶ں کے گھروں کے پندرہ مرلہ کے صحن میں مرغیاں پالتے مفت میں مہنگے داموں انڈے حاصل ہوتے ہیںاوراس عمر میں روز انڈے کھا کر ہائی بلڈ پریشر کے مریض بن جاتے ہیں۔