انسان تو روز بروز مشین بنتا جا رہا ہے ۔زمانہ جتنا آگے کو رواں ہے ۔بندہ رشتوں ناتوں کے ساتھ تعلق بحال رکھنے کے معاملے میں پیچھے کو روانہ ہے‘بڑے بزرگ شاکی ہیں کہ ان کو ان کا پروٹوکول نہیں ملتا اور چھوٹے گلہ مند ہیں کہ بڑوںمیں بزرگانہ شفقت کے اثرات مٹتے جارہے ہیں‘ یہ دراصل وقت کی ڈیمانڈ ہے‘ہر ایک کو اپنی پڑی ہے کیونکہ مارکیٹ کا انداز بدلتا جا رہاہے‘ہم بھی کیا لوگ کیا کہتے ہیں‘ اس مشینی دور میں جب ہر شخص اپنے آپ کو دیکھ رہا ہے اس کو معلوم نہیں کہ دنیا میں اور لوگ بھی ان کے علاوہ ہیں ‘انھیںبھلاکسی کی مجبوری کا حال کیا معلوم ہوگا‘ بس اپنا مقصد حاصل کیا اور چلتے بنے ‘اگر بندہ اپنے کام کاج میں انتہائی مصروف ہے تو اس کو تفریح کا موقع کم میسر آتا ہے‘ ہفتہ اتوا ر کہیں منگل بدھ اور کہیں جمعہ کو پھر کہیں صرف اتوار کو ان ساتوں دنوں میں چھٹی ہوتی ہے‘مگر اس کے باوجود تفریح کے مواقع کم سے کم ہورہے ہیں‘ پھر ایجوکیشن ہو تو وہاں چھٹیاں ہی چھٹیاں ہیں۔گرمی اور سردی کی الگ الگ ۔مگر افسوس تو یہ ہے اگر اتوار کوایک چھٹی بھی تو مزدور طبقہ اس ایک دن کو بھی کام کاج میں صرف کرناچاہتاہے‘ تاکہ گھر والوں کےلئے اناج مہیا ہو سکے ۔لیکن اس ہفتہ واری مصروفیت میں ایک چھٹی بھی نہ کی جاسکے تو نہ صرف بندہ چڑچڑا ہو جاتا ہے بلکہ اس کی گھریلو لائف ڈسٹرب ہو جاتی ہے ۔وہ ہر ایک کے منہ کو آتا ہے اور ہر کسی کے سر ہونے لگتا ہے ۔کیونکہ وہ تو آل ریڈی خلجان کا شکار ہوتا ہے سو اس وجہ سے اس کو گھریلو طور پر یا باہر کہیں بازار میں کسی کی چھوٹی موٹی بات بھی بری کچھ زیادہ بری لگنے لگتی ہے‘ایسے میں اگر اس کے کھیسے میں روپوں کی گھٹری نہ ہو بٹوہ خالی ہو تو وہ مزید لڑنے بھڑنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ‘کہنے کامطلب یہ ہے کہ ہفتہ وار تعطیل جو بہت ضروری ہے اس کو انجوائے کرنا تو ازحد کارآمد ہے‘جیسے دن کو دوپہر کے بعد گھنٹہ بھر سو لینے سے بندہ ریفریش ہو جاتا ہے ‘ اس کی
کارکردگی پہلے سے شاندار ہو جاتی ہے‘اسلئے ہفتہ وار چھٹی سے بھی بندہ بہت فریش ہو تا ہے‘بشرطیکہ وہ دفتر کاکام گھر پر ساتھ لےکرنہ آئے ۔ دفتر کا کام ہے تو یہ فائلوں کے گھٹے دفتر کی میز ہی پر اچھے لگتے ہیںنہ کہ ان کو بغل میں داب کر روزانہ گھر لائیں اور ہفتہ وار چھٹی کے دن بھی ان گھٹوں گاڑی میں رکھ کر لائیں تاکہ اتوار کو گھر پر کام کریںگے‘یہ پریکٹس بہت نقصان دہ اور انسانی ذہن کےلئے زہر ہے‘آدمی کہیں کا نہیں رہتا ۔ہفتہ وار چھٹی ہو یا دن کو چھٹی کے وقت گھر آنا ہو دفتر کا کام دفتر ہی میں چھوڑ کرآئیں ۔گھر کے افراد کےساتھ گھل مل کر بیٹھیں گپ شپ لگائیں چائے کادور چلے کہیں قہوے کی سُرکیاں لیںتو معلوم ہو کہ زندگی کس کو کہتے ہیںزندگی کو انجوائے کریں‘ مگر ہمارے ہاں بعض اداروں کے ملازمین پر کام کا اتنا بوجھ ہوتا ہے کہ وہ بچوں کی کاپیاںاور ہر تیسرے دن لئے جانے والے پیپر بنڈل کے بنڈل گھر لےکر آتے ہیں ۔ہمہ وقت ان کو دیکھیں وہ کاغذوں کے پلندوں ہی میں پھنسے رہتے ہیں‘ اس طرح مشین بن جانے سے بہتر ہے کہ بندہ گھر میں گھر والوں کو وقت دے اور گپ شپ میں ٹائم پاس کرے ‘پھر خودکو بھی تو وقت دے ‘ اکیلا واک کےلئے نکل جائے اور اپنے آپ سے باتیں کرے بھلے لوگ اسے دماغ سے خال سمجھیںاور پاگل ہی کیوں نہ قراردیں‘مگر اس کو اس دورمیں کہ سب ایک دوسرے سے جدا ہیں اپنے آپ سے جدا نہ ہونے پائے‘ اگر ہاسٹل سے آپ ہفتہ وارچھٹی پر گھر نہ گئے تو بھی مسئلہ ہے کہ انٹر ٹینمٹ کہاںسے ہوگی‘ اگر مجبوری ہے کہ گھر دور ہے اور آپ کو مالی لحاظ سے یا کسی اور انتظامی معاملے کی وجہ سے گھر کو جانے کےلئے پندرہ دنوں بعد کی چھٹی کا انتظار کرنا پڑتا ہے تو یہ ہرچند کے آپ کےلئے بھلا ہوگا مگر آپ کے ذہن کےلئے یہ ایک برا عمل ہو سکتا ہے‘ کیونکہ بندہ کی انٹر ٹینمنٹ گھر کے افراد سے ہے بچوں سے اور دوستوں سے ہے ‘اگر ان میں سے کسی کےساتھ آپ نہیں مل پاتے اور اس میں ہفتوں بلکہ اگر حالات نا موافق ہوںتو مہینے لگ جاتے ہیں‘اس سے بندہ ذہنی طور پر بیمار ہونے لگتا ہے‘اس لئے چھٹی والے دن کوئی او رکام نہ کریں او راپنی ذاتی زندگی سے لطف کشید کریں۔