فرد جرم

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے اُنہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ میامی نامی ریاست کی عدالت میں پیش ہوئے اور اُن پر الزام ہے کہ وہ صدر کے عہدے کی مدت مکمل ہونے پر وہ اپنے ساتھ ایسی خفیہ دستاویزات لے گئے جنہیں پاس رکھنا غیرقانونی اقدام تھا اور سرکاری اہلکاروں نے مذکورہ دستاویزات اُن کی رہائشگاہ سے برآمد بھی کیں جنہیں اپنے پاس رکھنے کا وہ اعتراف کر چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا شمار امریکہ کے ارب پتی کاروباری افراد میں ہوتا ہے اور وہ جائیداد کی خریدوفروخت سے لیکر رئیلٹی ٹیلی ویژن شوز تک اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اِس بات کا تو اعتراف کرتے ہیں کہ اُن کے پاس سرکاری دستاویزات تھیں لیکن وہ اِس بات (فرد جرم) سے اتفاق نہیں کرتے یہ دستاویزات اُن کے پاس نہیں ہونی چاہئیں تھیں یا وہ لاعلمی میں اِنہیں پاس رکھے ہوئے تھے۔ ایک سال کے دوران یہ دوسرا موقع ہے جب ٹرمپ کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ اِس سے قبل اپریل میں نیویارک میں کاروباری ریکارڈ میں جعل سازی کے الزام میں بھی اُن پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ یہ الزامات فلوریڈا کے پام بیچ میں ٹرمپ کی مار لاگو اسٹیٹ پر ایف بی آئی کے چھاپے کے بعد عائد کئے گئے‘ جس میں حکام کو ایک سو سے زائد خفیہ دستاویزات ملی تھیں۔ سابق صدر پر الزام ہے کہ انہوں نے سال دوہزاراکیس میں صدرات کا عہدہ چھوڑنے کے بعد غیر قانونی طور پر انتہائی اہم نوعیت کی حکومتی دستاویزات کو اپنے پاس رکھا اور وہ دستاویزات جو کہ قومی راز ہیں‘ اُن تک غیرمتعلقہ لوگوں کو رسائی دی جسے ’قومی راز‘ شیئر کرنے کا بھی جرم قرار دیا گیا ہے اور یہ الزام بھی ہے کہ جب اُن سے دستاویزات طلب کی گئیں تو اُنہوں نے مذکورہ خفیہ دستاویزات واپس حاصل کرنے سے انکار کیا۔ الزامات کی سنگینی کے باوجود ٹرمپ نے الزامات کی سنگینی کے باوجود اس الزام کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے اور اِسے مسترد کیا ہے جبکہ اُن کی قانونی ٹیم نے اشارہ دیا ہے کہ یہ الزامات سیاسی محرکات پر مبنی ہو سکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے کاروباری اور سیاسی کیریئر کے دوران قانونی پریشانیوں کا شکار رہے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ حیران کن ہیں کہ باشعور و خواندہ امریکی ووٹر کس طرح ایک شخص کو منتخب کرتے ہیں اور اُسے اپنا رہنما تصور کرتے ہیں جو قانون کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دیتا اور امریکی قوانین کا خاطرخواہ احترام بھی نہیں کرتا۔ ٹرمپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ واحد امریکی صدر ہیں جن کا دو بار مواخذہ کیا جا چکا ہے۔ اِس طرح کے حالات کا سامنا کرنےو الی دیگر امریکی سیاسی شخصیات گمنامی کی زندگی میں چلی گئیں لیکن ٹرمپ تمام تر قانونی پریشانیوں کے باوجود ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں اور یہ اُن کی جانب سے غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ ہے۔ وہ اپنے الزام لگانے والوں‘ خاص طور پر بائیڈن حکومت میں شامل افراد کی ایمانداری‘ غیر جانبداری اور حب الوطنی پر سوال اٹھا رہے ہیں اور اپنے خلاف مقدمات کا محرک سیاسی بتاتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے پولرائزڈ امریکہ میں‘ جو امریکیوں کے لئے تکلیف دہ صورتحال ہے کیونکہ عوام کا اداروں پر اعتماد کم ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا بیانیہ ایک ایسے گلوبلائزڈ امریکہ کا تاریک چہرہ ہے جس میں قانون کی بالادستی پر سمجھوتہ اور سفید فام امریکیوں کے مقابلے دیگر قوموں کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ درحقیقت تازہ ترین الزامات نے ٹرمپ کی مقبولیت کو کم کیا ہے اور وہ آئندہ صدارتی انتخابات میں ری پبلکن نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ اکیاسی فیصد ری پبلکن رائے دہندگان نے ٹرمپ کی حمایت کی ہے کہ اُن کے خلاف مقدمات اور الزامات کی وجہ سیاسی محرکات ہیں۔ ٹرمپ کے حامیوں میں سے کچھ کی جنونی ردعمل کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے جیسا کہ اُن کے حامیوں (مشتعل ہجوم) نے واشنگٹن ڈی سی میں قانون ساز ایوان کی عمارت (کیپیٹل بلڈنگ) پر دھاوا بول دیا تھا جب دوہزاربیس میں ٹرمپ نے صدارتی انتخابات میں شکست کھانے کے بعد اِسے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ امریکہ میں سیاسی افراتفری کا مظاہرہ غیرمتوقع اور اِس وجہ سے حیران کن ہے کہ امریکہ خود کو جمہوریت اور انسانی حقوق کا محافظ سمجھتا ہے لیکن خود اُس کے اپنے ہاں قانون کی حکمرانی پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔ ٹرمپ کے بیانئے کی مقبولیت اس بات کی گواہ ہے اور اِس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ زیادہ تر امریکی حکومت سے الگ تھلگ ہو چکے ہیں اور امریکہ میں وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پھیلا ہوا ہے جبکہ ٹرمپ کے مدمقابل قانون کی حکمرانی جیسے تصورات کو اہمیت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو امریکہ کی کامیابی کا راز ہے۔امریکہ میں اس وقت جو معاملہ زیر بحث ہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مستقبل ہے تاہم حیرت انگیز طور پرکئی غلطیوں اور بہت سارے الزامات کا بوجھ اٹھانے کے باوجود یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ماضی کا حصہ بن گئے ہیں بلکہ اب بھی ایسے حلقے ہیں جو اس ارب پتی سیاستدان کی واپسی کی امید لگائے بیٹھے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ جو کچھ ہو رہاہے وہ سیاسی انتقام ہے اور وہ وقت دور نہیں جب وہ ان تمام حالات اور مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے دوبارہ امریکہ کے اہم ترین منصب یعنی صدارت پر دوبارہ فائز ہوں گے ان حلقوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو امریکہ میں سفید فام نسل کی فوقیت پر یقین رکھتے ہیں اور ایک طرح سے نسل پرست معاشرے کے حامی ہیں اور ان لوگوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ امریکہ میں تارکین وطن کی آمد ہے جس کے بارے میں سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک واضح موقف رکھتے ہیں ساتھ ساتھ ان حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یورپ امریکہ پر بوجھ ہے شاید یہی وجہ تھی ٹرمپ نے نیٹو سے فاصلے بڑھائے تھے اور کہتا تھا کہ نیٹو کا بوجھ یورپ خود اٹھائے امریکہ نیٹو کا بوجھ اٹھا رہاہے جبکہ خود یورپی ممالک اس تنظیم میں وہ دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں جس کا امریکہ ان سے مطالبہ کرتا ہے۔