کینیڈا میں صرف دو مہینے گرمی کے ہوتے ہیں لیکن یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب23 سال پہلے میں کینیڈا آئی تھی میرے اردگرد تمام گورے گوریاں آباد تھے اور گرمی کے دو مہینے جولائی اور اگست یہاں کے مکینوں کو پریشان کر دیتے تھے گھر ٹھنڈے برف لیکن بازار آگ برساتے‘ یہاں مغرب کی دھوپ جغرافیائی طور پر اپنے اندر نہایت سفاک قسم کی چبھن لئے ہوئے ہوتی ہے یہ چبھن رہن سہن پہناوے اور خوراک پر بری طرح اثر انداز ہو جاتی ہے ہم ایشیا کے لوگ چونکہ سخت گرمیوں کے باسی ہیں تو ہمیں یہ گرمی مذاق کی طرح لگتی ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بھی 33ہوتا تھا البتہ دھوپ کی چبھن واقعی پریشان کن ہوتی‘ گلاسز کے بغیر لگتا آنکھیں ابھی پگھل جائیں گی جولائی اور اگست میں سوئمنگ پول گھروں کے اور کمرشل بھی لوگوں سے بھرے رہتے حکومتی سطح پر پانی کی ٹھنڈی بوتلیں ہر ایک کیلئے مفت تقسیم ہوتیں اور ایسے ٹھنڈے آرام دہ کمرے اور لاﺅنج بنائے جاتے کہ جو لوگ کام کاج کی وجہ سے سڑکوں پر ہیں کچھ وقت کیلئے آرام کرسکیں کینیڈا ایک پیارا اور خوبصورت سا اپنائیت لئے ہوا دوسرا گھر ہوتا تھا‘ پہلا گھر ظاہر ہے اپنا ملک ہی ہوتا ہے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہی چلا گیا گرمی کے مہینے پھیل گئے اور جون بھی اس میں شامل ہوگیا ٹھنڈی برف بوتلیں ملنا بند ہوگئیں البتہ ٹھنڈے کمرے ابھی بھی قائم دائم رہے کینیڈا کی حکومت کو امیگرنٹ سے ملنے والی دولت اتنی بھا گئی کہ امیگریشن منسٹر کو وارننگ ملنا شروع ہوگئی کہ امیگرنٹ آنے کی رفتار کم ہے اور اس کو لاکھوں کا ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے زیادہ محنت کرنا پڑیگی ۔آنے والے ملین اور ملین لوگوں کے گھروں کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے جنگل کاٹنا ضروری ہوگیا آنے والے زیادہ بچے بے شمار سکولوں کے متقاضی
تھے ان کیلئے بھی سرسبز درختوں کو ملیامیٹ کردیاگیا اور آج میرے23 سال کی رہائش کے دوران میں دیکھتی ہوں کہ وہ گھر جو کینیڈا میں گوروں کی ضروریات کیلئے بنائے گئے تھے ان میں جو حسن خوبصورتی اور آرٹسٹک پن تھا وہ حسین و جمیل کنسٹرکشن کہیں کوسوں دور کھو گئی ہے اب ڈر بے بن رہے ہیں بڑا ڈربہ چھوٹا ڈربہ‘ درمیانہ ڈربہ‘ تاکہ دور دیسوں سے آنے والوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے اور یہ تین قسم کے ڈربے لاکھوں ڈالرز کے ہیں سود کی شرح اس وقت سب سے زیادہ ہے ان ڈربوں کو خریدنے کیلئے بینک آنے والوں کو قرضہ دیتا ہے جو ماہانہ ادائیگی کے بدلے میں ہوتا ہے اور یہ ادائیگی آنے والوں کی کمر توڑنے کے کافی ہوتی ہے‘ تعلیم فری ہے خوراک اور باقی ضروریات زندگی میں ایک ڈالر کی چیز پر بھی 15فیصد ٹیکس ہے اس ایک فری تعلیم اور وہ بھی انگریزی تعلیم کیلئے آنے والے نفسیاتی طورپر اتنا مطمئن ہو جاتے ہیں کہ کولہو کا بیل بنتے ہوئے ان کو زیادہ دیر نہیں لگتی نئی نسل انگریزی بولتی ہے پرانی نسل سخت محنت کرتی ہے اور خوش ہوتی ہے کہ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں‘ سال کے آخر میں نوے فیصد گھر کی مد میں صرف سود کی ادائیگی ہوتی ہے اور تب تک ہوتی رہے گی جب تک پرانی نسل سفید بال اور دہری کمر کیساتھ جینا نہ شروع کر دیگی ہاں اسکو جیتنا کہنا زیادتی ہوگی اور مرنے کا لفظ میں لکھنا نہیں چاہتی اب گرمی کے مہینے پھیل کر مئی تک آچکے ہیں گرمی کی چھٹیاں کینیڈا کے اپنے سسٹم کے مطابق یکم جولائی کو ہی ہوتی ہیں سکولوں میں اے سی نہیں ہیں ہاں البتہ ہیٹر سسٹم موجود ہے یعنی کاغذات میں ان کا اپنا نظام شدومد کے ساتھ جاری ہے اسی طرح دور دیسوں کے لوگوں کی ابھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ آمد جاری ہے‘ نہ جانے یہ امیگریشن کی آمد کب تک جاری رہے گی‘ خزانے کب تک بھرتے رہنے کا پروگرام ہے اور دکھ اٹھانے کا یہ کھیل کب تک جاری رہنے کا امکان ہے کوئی نہیں جانتا زندگی کا معیار اوپر جا رہا ہے یا پھر برباد ہو رہا ہے بس بچے انگریزی بول رہے ہیں۔