لکھا ہے یہ ان ہوا¶ں پہ

دھیرے دھیرے سے ہوا چلے یا تھوڑی تیز ہو جائے ماحول کو شائستہ بنا دیتی ہے ۔پھر یہ ہوا ان مقامات پر جو یخ بستہ ہوں زیادہ مزا دیتی ہے۔وہ علاقے جو درختوں سے ڈھکے ہوں جہاں انسانی آبادی بھی کم ہو اور پہاڑیوں پر واقع ہوں وہاں کسی پارک میں بیٹھ کر ٹھنڈک کے ساتھ دلوں کو لبھانے والی ہوا کتنی لطف اندوز ہو تی ہے ۔پھر وہاں اگر صبح کی ہوا کا منظر ہو درختوں کی گھنیری شاخوں میں ابھی اندھیرا ہو پرندے اپنے آشیانوں میں چہچہا رہے ہوں۔کیا اچھا شعر یاد آیا ہے ” صبحِ کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر ۔ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا“۔وہ دل دہی کرنے والے خوبصورت مقامات جہاں سے ریل کی پٹری عین آبادی کے درمیان میں گزرتی ہو وہاں اگر صبح سمے ریل کی سیٹی بجے اور دل لہو سے کیوں نہ بھر جائے ۔یہ منیرنیازی پر گزرنے والی کیفیت ہر اس آدمی پر گزر جائے گی جن کے پیارے بہت دور کہیں رہائش پذیر ہوں۔” لوگ کہتے ہیں کہ پربت سے نکل کر چشمے ۔ دور کھوئی ہوئی منزل کی طرف بہتے ہیں۔ اور سرِ شام ہوا ان کے لئے چلتی ہے ۔ جن کے محبوب بہت دورکہیں رہتے ہیں“۔گذشتہ روز ہوا¶ں کا عالمی دن منایا گیا۔ عجیب دن تھا ” ہواچلی تو میرا عارضی مکاں بھی گیا“کل ہی آندھی اور طوفان اور مٹیالے جھکڑ چلے سمندری علاقوں میں تو مکانات کی چھتیں تک اڑ گئیں۔ مگر ہوا تو ہوا ہے ” دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی ۔کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی “۔ہوا ماحول کو خوبصورت بنا تی ہے ۔مگروہ ہوا جو چل کر شاخوں پر کلیوں کو جھولا دے اور گُدگدائے تاکہ یہ ہنسیں او رکھل اٹھیں۔” پھر ساون رُت کی پون چلی تم یاد آئے۔ پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے۔پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں۔ رُت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے ۔ پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا ۔بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے“۔مگر یہ ہوا اگر صبح کی نہ ہو اوربہار کی پُروائی ہو ” گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے ۔چلے بھی آ¶ کہ گلشن کا کاروبار چلے “۔ہوا¶ں کا عالمی دن منایا گیا تو اس لئے کہ تازہ ہوا کوچلنے سے روکنا نہیں چاہئے ۔ذہن کی کھڑکی تازہ ہواکے کسی ایک بھی جھونکے کے لئے کھلی رکھنی چاہئے۔وہ ہوا نہ ہو جو خیموں کو اکھاڑ کر رکھ دے ۔” ہوائے دورِ مئے خوشگوار راہ میں ہے ۔ خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے “۔وہ ہوا نہ ہو جو بادِ صر صر کہلاتی ہے ۔جب ہوا کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور وہ شاخوں سے پھولوں کو اکھاڑ اکھاڑ کر زمین پر پٹخ دیتی ہے۔بازارو ںمیں سے دکانوں کے چھپر اڑا دیتی ہے ۔” دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا ۔ جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا“۔ ہوا ٹھنڈی ہو اور دل کی چوٹوں کو سکیڑ کر ان میں درد بھر دے تو وہ ہوا کیا۔ ہوا جو دل کو تسلی دینے والی ہو جیسے کس غمزدہ بچے کو ماں تھپکی دیتی ہو جیسے کسی مفلس کی قبا کی سلائی کرنے کو کسی نے سوزن و تار ہاتھ میں لے رکھا ہو وہ ہوا جو گریبان کو رفو کرے اس ہوا سے بہت اچھی ہے کہ جو گریباں چاک کر دینے والی ہو۔ہوا¶ں کا عالمی دن اگر منایا گیا تو ہوا ہی میں منایا گیا نہ کسی کوقبل از وقت کوئی اطلاع نہ ہی کوئی خبر پھر ہمارے عوام میں کون سا شعور وآگہی ہے کہ کسی دن کے منانے کا کیا مطلب ہے ۔یہ توبھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے ۔ان کو ہوا¶ں کی اورپھر تازہ ہوا¶ں کی خاطر و مدارت کیا۔ہوا تو چلتی ہے کسی کو اونچا اڑانے کے لئے اور کسی کو نیچا گرانے کے لئے۔” اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں“۔ ہوا بھی اپنے ذہن میں کیا خلجان رکھتی ہے کہ کبھی تو ایک جھونکا ہوا کا اٹھا کر تختِ شاہی پر براجمان کر دیتا ہے ۔پھر کبھی یہی ہوا دونوں ہاتھوں سے تھام کر زمیں بوس کر دیتی ہے۔پھر کہنا پڑتا ہے ” ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مدارتوںکے بعد ۔پھر بنیں گے آشناکتنی ملاقاتوں کے بعد۔ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ ک©ئے۔ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد“ ۔یہ کیا نیا نخرہ ہے کہ ہوا¶ں کا عالمی دن منایا جائے یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ ہوا ہے چلے گی چل رہی تھی اور چل رہی ہے ۔مگر اس چل چلا¶ میں اگر ہم ذہنی طور پر رکے ہوئے ہیں تو کیاہوا ہم اپنی اخلاق کے تنا¶ کے ساتھ زندہ ہیں یہ بھی کیا کم ہے ۔