وہ کھلاڑی جن کا پھر کوہی ثانی نہ آیا

کھیل کے میدان میں مختلف گیمز میں گزشتہ ایک سو برس میں بعض ایسے کھلاڑی پیدا ہوئے کہ جن کو صحیح معنوں میں لیجنڈ قرار دیا جا سکتا ہے اور ان کے جانے کے بعد آج تک دنیا میں ان جیسے بلند پایہ اور معیار کے کھلاڑی دوبارہ پیدا نہ ہو سکے۔ سب سے پہلے سکواش کا ذکر کر لیتے ہیں ۔سکواش کے دلدادہ لوگوں کی آنکھیں ترس گئی ہیں کہ کاش کوئی ہاشم خان جیسا کھلاڑی پیدا ہو۔ پر ان جیسا سکواش کا کھلاڑی پھر نہ آ یا۔ پشاور کے ایک نواحی علاقے نوا کلی سے تعلق رکھنے والے اس کھلاڑی نے بلا شرکت غیرے دنیا کے سکواش کورٹس پر ایک لمبے عرصے تک راج کیا جو کئی دہاہیوں پر محیط تھا ۔وہ برٹش اوپن سکواش ٹورنامنٹ کے کئی برسوں تک چمپئن رہے۔ انگلستان سے امریکہ شفٹ ہو جانے کے بعد ان ہی کے بھائی اعظم خان برٹش اوپن سکواش ٹورنامنٹ کے چمپئن بنے۔ ہاشم خان ایک لمبے عرصے تک امریکہ میں ہونے والا ہر سکواش ٹورنامنٹ جیتتے رہے۔ انہوں نے سو سال کی عمر میں امریکہ میںہی وفات پائی اور وہاںہی وہ دفن ہوئے۔ سکواش کھیل کے ماہرین اور مبصرین کی متفقہ رائے یہ ہے کہ سکواش کی دنیا میں ہاشم خان جیسا کھلاڑی پھر نہیں آیا۔ کرکٹ کے میدانوں نے آ سٹریلیا کے بلے باز ڈانلڈ بریڈمین جیسا بیٹسمین پھر نہ دیکھا ۔وہ جب ریٹائر ہوئے تو ان کی بیٹنگ اوسط 100کے لگ بھگ تھی اور اتنی زیادہ اوسط دنیا کا کوئی بلے بازحاصل نہیں کر سکا ہے۔ فٹبال میں جو مقام آ رجنٹینا کے میراڈونا کو یا پھر برازیل کے پیلے کوحاصل ہواہے وہ کسی اور فٹبالر کے حصے میں نہیں آ سکا۔کھیلوں کے مندرجہ بالا نابغوں کے ہلکے سے ذکر کے بعد اب ذرا تازہ ترین قومی اور عالمی معاملات پر ایک طائرانہ نظر بے جا نہ ہوگی۔ چین مشکل کی گھڑی میں ہر قدم پر ہمارا جو ساتھ دے رہاہے، ایک عام پاکستانی بھلا اسے کیسے بھلا سکتا ہے۔ اگلے روز چینی قرضے کے رول اوور ہونے سے پاکستان کو ایک ارب ڈالر واپس مل گئے ہیں۔افغان وزیر دفاع کا یہ بیان اپنی جگہ درست ہے کہ افغانستان کی فضائی حدود اب بھی امریکہ کے قبضے میں ہیں ۔پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا افغانستان سے گیا ہی کب تھا۔اب بھی امریکہ افغانستان کے اندر اپنا اثر و رسوخ رکھنا چاہتا ہے تا کہ اس خطے میں قدم جما کر وہ چین اور روس سے چھیڑ چھاڑ کر سکے ۔اس مقصد کے حصول کے لئے افغانستان میں کسی بھی اس حکومت کو سکھ کا سانس لینے نہیں دے رہا کہ جو اس کی بلا چون و چرا تابعداری نہ کرے روس کو چاول برآمد کرنے کی اجازت ایک صائب فیصلہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری معیشت کی بقا اس میں ہے کہ ہماری برآمدات ہماری درآمدات کے مقابلے میں زیادہ ہوں اورا س کے لئے ضروری ہے کہ علاقائی طور پر ممالک کے درمیان تجارت اور معاشی روابط فروغ پائیں۔ اگر چین، پاکستان، روس ، ایران اور افغانستان سمیت وسطی ایشیائی ممالک آپس میں ایک معاشی بلاک بنائیں تو اس سے ایک طرف امریکی ڈالر سے نجات مل سکتی ہے تو دوسری طرف خطے کے ترقی پذیر ممالک میں عوام کی زندگی میں نمایاں بہتری لائی جاسکے گی، جس طرح کہ چین نے اپنی ایک بڑی آبادی کو غربت سے نکال کر انہیں مطمئن اورخوشحال زندگی سے آشنا کر دیا ہے ‘یہ صدی ایشیا کی طرف طاقت کا محور پلٹنے کی صدی ہے اس میں امریکہ اور یورپ کی بجائے چین اور روس سمیت خطے کے ممالک طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کریں گے پاکستان بھی ان ممالک میں سے ہے جس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔