ترقیا تی فنڈ اما نت ہے 

ہر سال کی طرح اس سال بھی وفا قی بجٹ میں سر کاری شعبے کے تر قیا تی پر و گرام کے لئے بھا ری رقوم مختص کی گئی ہیں پہلے کی طرح صو بائی بجٹ میں بھی تر قیا تی فنڈ رکھا جا ئے گا اس فنڈ کو مختلف محکموں کے الگ الگ شعبوںمیں تقسیم کیا جا تا ہے ہر تین ماہ بعد اس کے خر چ کا حساب ما نگا جا تا ہے سال کی چار سہ ما ہیوں میں اس کو خر چ کر کے ختم کیا جا تا ہے عام تجربہ اور مشا ہدہ یہ ہے کہ سکول کے ہیڈ ما سٹر کو اگر ایک کلا س روم کی تعمیر کےلئے صرف 8لاکھ روپے ملتے ہیں تو کلا س روم ایک سال میں تعمیر ہو جا تا ہے اس کے مقا بلے میں کلا س روم کی تعمیر کےلئے اگر دو کروڑ روپے روایتی طریقے سے خرچ ہوں تو اس کی تعمیر پر چار سال لگتے ہیں کا م بھی دو پیسے کا نہیں ہو تا اس طرح ایک نہر یا آبنو شی سکیم کےلئے کسی روایتی طریقے سے اگر 10کروڑ کا فنڈ استعمال میں لایاجا ئے تو منصو بہ 8سالوں میں مکمل نہیں ہو تا مکمل ہو جا ئے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ تعمیرا تی کام کا معیار نا قص ہے اگلے سال اس کی مرمت کےلئے فنڈ کا مطا لبہ کیا جا تا ہے۔ اس کے مقا بلے میں پرا جیکٹ کمیٹی‘ پراجیکٹ لیڈر یا مقا می استفادہ کند گان کی تنظیم کو اسی کا م کےلئے اگر 20لا کھ روپے کا پرا جیکٹ دیا جائے تو وہی کا م ایک سال میں اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ مکمل ہو تا ہے وجہ یہ ہے کہ سکول کا ہیڈ ماسٹر کلا س روم کو اپنا گھر سمجھتا ہے‘قومی خزا نے سے آنے والے فنڈ کو اما نت سمجھتا ہے ۔گاﺅں کے لو گوں کی پراجیکٹ کمیٹی یاتنظیم آپ پا شی یا آب نو شی سکیم کو گاﺅں کی ملکیت اور عوام کی ملکیت سمجھتی ہے اسلئے تھوڑا سافنڈ سوچ سمجھ کر استعمال کر تی ہے اور ان کا ہر کا م معیا ری بھی ہو تا ہے۔ 1960ءکے عشرے میں محکمہ بلدیات کے قانون میں پرا جیکٹ کمیٹی ، دیہی تنظیم اور امدا د باہمی کے تحت سر کاری فنڈ کا استعمال ہو تا تھا ۔یہ سلسلہ 2008تک جا ری تھا 2008میں اس کو ختم کیا گیا ۔عالمی عطیہ دہند گا ن یا ڈو نر ز پا کستان کو جو امداد یا گرانٹ دیتے ہیں اس کےلئے وزارت خزا نہ کو پا بند کر تے ہیں کہ یہ رقم ہر حال میں دیہی تنظیموں اور پراجیکٹ کمیٹیوں کے ذریعے مختلف سکیموں پر خر چ کی جا ئیگی ۔انگریزی میں اس اصول کو اونر شپ یعنی تصور ملکیت کہا جا تا ہے۔ 2023اور 2024کا بجٹ ایسے وقت پر پیش کیا گیا ہے جب وطن عزیز تاریخ کے بد ترین معاشی بحران کا شکار ہے اور کفایت شعاری و بچت کی اشد ضرورت ہے‘اس لئے مو جو دہ بجٹ کو خر چ کر تے وقت پھو نک پھو نک کر قدم رکھنا چا ہئے اور وقت کی نزا کت کا تقا ضا یہ ہے کہ روایتی طریقہ کار کے بجا ئے دیہی تنظیموں اور پرا جیکٹ کمیٹیوں کو کا م دیا جا ئے ہزارہ ‘سوات‘ دیر ، کو ہستا ن ، چترال اور گلگت بلتستان میں دیہی تنظیموں اور پرا جیکٹ کمیٹیوں نے گزشتہ 40سالوں میں ہزاروں کا میاب منصو بوں پر کا م کیا ہے۔ ان میں سڑک ، پل ، آب پا شی ، آبنو شی کی سکیموں کے علا وہ جدید ترین بجلی گھر بھی شا مل ہیں واپڈا ، پیسکو اور کر اچی الیکٹر ک سپلا ئی کمپنی کے پا س اب تک پری پیڈ بلنگ سسٹم نہیں ہے۔ چترال کی دیہی تنظیموں نے 600کلو واٹ اور 800کلو اٹ کے بجلی گھروں کے صا رفین کو کارڈ کے ذریعے بیلنس ڈال کر بجلی حا صل کر نے کا سسٹم دیا ہے رات دس بجے گھر کی بجلی چلی گئی تو قریبی دکا ن سے بیلینس ڈلوا کر کارڈ کو فعال کریں ۔دو منٹ کے اندر بجلی آجا ئیگی اگر متبا دل سسٹم متعا رف نہیں کرا یا گیا تو قومی خزا نے کو اس کا نقصان ہی ہو گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ روایتی طریقے کار کی بجائے غیر روایتی اور جدید انداز کو اپنایا جائے خاص کر ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں اس کا بروئے کار لانا ضروری ہے اس سے نہ صرف ترقی کا سفر تیز ہوگا اور عوام کو سہولیات کی فراہمی میں آسانی ہوگی بلکہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے اگر معاشرتی سطح پر موجود کمیونٹیز اور تنظیموں سے استفادہ کیا جائے تو اس کے ذریعے ترقیاتی کام اور منصوبے زیادہ آسانی کے ساتھ کم خرچ میں پروان چڑھائے جا سکتے ہیں اور اس حوالے سے قدم اٹھانے میں اب مزید تاخیر کی گنجائش موجود نہیں یعنی یہ کام جلد از جلد ہوناچاہئے۔