تو میں نے سوچا 

ایک تو جس گھر میں بھی جا¶ وہاں یہی شکایت سننے کو ملتی ہے کہ گیس نہیں ہے ۔ ہر چند کہ ان میں سے بعض نے سلینڈر بھی رکھے ہیں ۔مگر جو کھانا بڑے چولھے پر پکتا اور اس میں لذت ہوتی ہے وہ سلینڈرکے پکوان پکانے میں کہاں ۔اب چاولوں کو لیں یہ تو تیز آگ پہ پکتے ہیں او راچھے پکائے جا سکتے ہیں۔ بچوں کے گھرجا¶ تو وہ گھر میں آواز دیتے ہیں باباجانی آئے ہیں ذرا چائے دھر لو ۔پھر وہاں ہمارا قہوہ کا موڈ ہوتا ہے ۔ہم کہتے ہیں نہیں یار قہوہ بنا لو ۔وہاں سے آواز سنائی دیتی ہے گیس نہیں ہے ۔انہوں نے ساتھ والے گھر سے گیس کی نلی لے رکھی ہوتی ہے ۔سارا موڈ خراب ہو جاتا ہے ۔بیچ میں ایک بہو لقمہ دیتی ہے کہ ساتھ والے گھر والے وہاں سے گیس بند کر دیتے ہیں ۔مگر میں سوچتا ہوں کہ ان کو کیا پڑی ہے کہ گیس بند کر دیںگے۔ گیس ہے ہی نہیں ۔پہلے سردیوں میں کہتے کہ سیلنڈر نکال لو سردی آگئی ہے گیس نہیں رہے گی۔ مگر اب تو سخت گرمی میں چار دانگ عالم میں گیس کی قلت ہے ۔حالانکہ مہینہ بھی جون کا ہے ۔ہم نے بھی گھر آ کر سلینڈر اٹھایا او رقریب کی دکاندار کے پاس سے سیلنڈر بھروا لائے ۔وہاں دوسری طرف کہ گیس نہیں ہے ہر گھر میں اب بہ امرِ مجبوری سلینڈر جلائے جا رہے ہیں۔ مگر اخبارات میںآئے دن آتا کہ فلاں جگہ سلینڈر پھٹ گیا اور اتنے بندے جھلس گئے۔ بعض جن کو سیلنڈر استعمال کرنا نہیںآتا وہاں جب آگ سے کھیلتے ہیںتو لازمی طور پرسلینڈر نے پھٹنا ہوگا۔ کیونکہ کوئی نہ کوئی غلطی ہو جاتی ہے۔پھر سنا ہے کہ آکسیجن والے سیلنڈروں میں بھی گیس بھر کے دیتے ہیں۔جو عام سیلینڈر کے مقابلے میں چادر کے لحاظ سے کمزور ہو تے ہیں۔ایک گھرمیں دیکھا کہ پچاس سالہ پرانا مٹی کے تیل کا خوبصورت چولھا استعمال ہو رہاہے۔پھر باقاعدہ اس ایک چولھے پر ہرقسم کاکھانا پکایا جاتا ہے۔میںنے کہا اس دور میںکہ سیلنڈر کارواج عام ہے آپ ایسے میں بھی پرانے زمانے کا بتیوں والا چولھا جلاتے ہیں یہ کیوں۔ بہن نے جواب دیا کہ سیلنڈر سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہیں پھٹ نہ جائے ۔ مگر احتیاط سے استعمال کریں تو کیوں پھٹے گا۔مگر وہ ہیں کہ ان کے دل میں ڈر بیٹھ گیا ہے۔حالانکہ شوہر صاحب نے کہہ رکھا ہے کہ میں بڑا سلینڈر لا کر اوپر چھت پر رکھوا دیتا ہوں۔ مگر وہ کہاں سنتی ہیں ایک ہی نہ ہے توبس نہ ہے ۔یہ ہوتا ہے مجھے خود پریشر ککر سے بہت ڈر لگتا ہے ۔جب بھی گھر میں استعمال ہو میں کہتا ہوں کھولتے وقت مجھے بلانا میں ساتھ کھڑا ہوں تو اس وقت اس کا ڈھکنا کھولنا کیونکہ کسی غلطی کے کارن یہ پھٹ بھی سکتا ہے۔ ہر ایک کے اپنے اپنے ڈر ہوتے ہیں اور یہ بلا وجہ بھی نہیں ہوتے، ہر کسی کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے کہ جس سے ایک ڈر اور خوف جنم لے لیتا ہے۔ خود ہمارے گھر ایک بار ککر پھٹ بھی چکا ہے ۔وہ نئے سٹائل کا ککر تھا جس کے دو وال ہوتے ہیں دونوں طرف سے ڈھکن بند کرنے کے بعد اس کے سکرو ٹائٹ ہوتے ہیں۔ وہ جلدی کھانا پکاتا ہے۔مگر یہ عام ککر سمجھیںاور پندرہ منٹ تک ککر ریل گاڑی کی آواز سے چھک چھک چلتا رہا ۔ مگر اچانک دھماکہ ہوا تو ہم بیٹھک میںتھے فوراً گلی میں نکلے کہ خدا جانے کہا ںدھماکہ ہوا ۔آواز تو قریب سے آئی ہے ۔مگر اپنے ہی گھر کے اندر سے شور کی آواز آئی جب اندر دوڑے تو مسماة کچن سے باہر جیسے تیسے نکل کر زمین پر اوندھے منہ پڑی تھیں۔ پرانی بات ہے۔ سارا کچن شوربے اور سالن سے کیچڑ کی طرح تھپا ہوا بلکہ دیواروںاور چھت پر یوں کہ جیسے ابھی پینٹ کروایا ہو سالن کا لیپ ہو چکا تھا۔ خاتون خانہ معجزانہ طور پر بال بال بچ گئیں تھیں۔اب ہم پٹرول پمپ کے جنرل سٹور میں داخل ہوئے ۔ کیونکہ وہاں چیزیں مختلف ورائٹی میں ملتی ہیں اور اچھی ملتی ہے او رمل جاتی ہے۔ورنہ اور دکانوں پر خوار ہونے سے بہتر ہے کہ یہیں آ¶ اور اپنی مرضی کی چیزیں اٹھا لواور مزے سے گھرلوٹ چلو۔ وہاں دکان میں کھڑا تھا تو باہر ایک دم سے بھگدڑ مچ گئی دکاندار بھی باہر دیکھ رہا تھا اور ہم بھی غور فرما رہے تھے کہ ہوا کیا ہے ۔ مگر نہ تو کوئی شور تھا اور نہ ہی کوئی لڑائی کا منظر تھا ۔مجھے تو سمجھ نہ آیا میںنے دکاندار سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے ۔دو تین بار پوچھا مگر تیسری بار اس نے جواب دیا سی این جی آ گئی ہے۔اصل میں وہاں پٹرول کے ساتھ سی این جی کے بوتھ بھی تھے ۔گاڑیوں کی قطار تھی اور گاڑیوں کے مالکان گاڑیوں سے اتر کر ایک جگہ گیس کے سلینڈروں کے پاس ہجوم بنائے کھڑے تھے ہر ایک کو جلدی تھی کہ جلدی گیس بھروائے اور کام کونکلے ۔