زراعت: مشکلات کا حل

اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں‘ غیر ملکی زرمبادلہ کے وسائل میں کمی اور دیوالیہ (ڈیفالٹ) ہونے کے دہانے پر کھڑی معیشت ’سنگین خطرات‘ کا سامنا کر رہی ہے جو یقینی طور پر مشکل ترین معاشی دور ہے۔ پاکستان کو درپیش معاشی مسائل کا تعلق صرف مقامی صورتحال سے نہیں بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے قائم عالمی سیاسی و معاشی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کی ایک وجہ ’کثیر قطبی دنیا (ملٹی پولر ورلڈ)‘ بھی ہے جس میں مختلف بڑی طاقتیں اپنے اپنے اثرورسوخ میں اضافے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں اور یہ جدوجہد کئی ممالک میں جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے جس سے نہ صرف عالمی معیشت افراتفری کا شکار ہے بلکہ اس کے نتیجے میں اشیا و اجناس کا نقل و حمل کا نظام بھی متاثر ہوا ہے اور اِس سے تجارتی خلل پیدا ہوا ہے۔ خوراک‘ ایندھن اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ عالمی صورتحال ہے۔ اِس قومی و بین الاقوامی غیر یقینی کی صورتحال کے پیش نظر ضروری ہے کہ پاکستان احتیاط سے کام لیتے ہوئے ایسے اہداف اور پالیسیاں وضع کرے جو ڈھال کی صورت اِسے بین الاقوامی تابکاری سے محفوظ رکھ سکیں اور اِس مقصد و ہدف کو حاصل کرنے کا پائیدار ذریعہ ’زرعی ترقی‘ ہے۔ پاکستان اپنی زرعی اراضی‘ پانی اور افرادی قوت (لیبر فورس) جیسے دستیاب وسائل کا خاطرخواہ بہتر استعمال نہیں کر رہا۔ ہم غیر ضروری اشیاء یا اجناس درآمد کر رہے ہیں جنہیں پاکستان میں حسب ضرورت پیدا کیا جا سکتا ہے اور اِس پر ہمارے زرمبادلہ کی کمائی کا انحصار بھی ہے۔ اگر پاکستان اپنی مقامی ضرورت پوری کرنے کے علاؤہ اِس نکتہئ نظر سے بھی زراعت کو ترقی دے کہ وہ زرعی اجناس کی برآمدات کرے گا تو اِس سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ترسیلات زر پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ملک کی طویل مدتی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ ہائی ٹیک‘ ہائی ویلیو ایڈیڈ ایکسپورٹس پر توجہ دی جائے۔ پاکستان کو بہت سے شعبوں میں پالیسی ری سیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اکثر اہداف اور پروگرام غیر موثر ہو چکے ہیں۔پاکستان میں غذائی تحفظ کا انحصار ’گندم‘ کی پیداوار پر ہے۔ گندم زیادہ تر پاکستانیوں کی بنیادی غذا ہے۔ سال دوہزاردس تک گندم کی پیداوار کی ہر سال اضافہ ہوتا رہا۔ 1990ء میں گندم کی پیداوار 14.4 ملین ٹن تھی جو سال 2011ء میں 25 ملین ٹن سے تجاوز کر گئی یعنی 20 برس میں 75فیصد گندم کی پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن اس کے بعد سے گندم کی پیداوار میں کمی آتی رہی اور پھر 27.5 ملین ٹن گندم حاصل کرنے کا ہدف دوہزار اکیس اور دوہزارتیئس میں حاصل ہوا۔ جو دس سے بارہ برس میں 10فیصد اضافہ ہے۔ گندم کی پیداوار میں ’سست نمو‘ نے پاکستان کو درآمدات پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ دو سے تین ملین (بیس سے تیس لاکھ) ٹن گندم ہر سال درآمد کی جاتی ہے۔ رواں مالی سال (2022-23ء) کے دوران پاکستان نے مجموعی طور پر ’ایک لاکھ ٹن‘ گندم درآمد کی جس پر ایک ارب ڈالر خرچ کئے گئے۔  گندم کی پیداوار میں اضافہ اور گندم کی درآمد کم کرنے کی کوشش اُس وقت کامیاب ہوں گی جب کاشتکاروں کو پیداواری ضروریات (بیج‘ کھاد‘ ادویات اور پانی) کم قیمت یا کم سے کم مقررہ قیمت اور حسب ضرورت مقدار میں دستیاب ہوں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ حکومت زرعی ’اِن پٹ‘ کو سبسڈی دے کر گندم کی قیمت کم نہیں کرتی لیکن مہنگے داموں گندم خریدنے کو ترجیح دیتی ہے لیکن اِس سے کاشتکاروں کو فائدہ نہیں ہو رہا اور نہ ہی گندم کی زیادہ امدادی قیمت مقرر کرنے سے اِس کی قیمت کم ہو سکتی ہے۔ گندم کی زیادہ سے پیداوار حاصل کرنے کے لئے پہلی ضرورت کم قیمت پر کھاد کی دستیابی ہے۔ کم قیمت بیج اور کم قیمت کھاد کی دستیابی سے گندم کی کاشت میں اضافہ ہوگا تاہم اِس حوالے سے خاطرخواہ گرمجوشی سے کام نہیں کیا جا رہا اور زیرکاشت رقبے میں اضافے کی بجائے کمی ہو رہی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں فی ہیکٹر گندم کی پیداوار قریب تین ٹن ہے جو خطے کے ممالک کے مقابلے بہت کم ہے۔ اِس کارکردگی کی وجوہات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ایک تو ہمارے کاشتکاروں کو حسب ضرورت کھاد اور پانی نہیں ملتا‘ دوسرا موسمیاتی اثرات کی وجہ سے گندم کے بیج شدید موسمی حالات کا مقابلہ نہیں کر پا رہے اور اِن وجوہات کے سبب زیادہ رقبے پر زیرکاشت گندم کی پیداوار کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ سبسڈی بنیادی طور پر درمیانے اور بڑے پیمانے کے کسانوں کو دی جاتی ہے جو کھاد کا پہلے ہی زیادہ استعمال کر رہے ہوتے ہیں جبکہ ’سبسڈی‘ کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ چھوٹے کاشتکاروں کو زیادہ فائدہ پہنچے جب تک سبسڈی دینے کے اِس رویئے اُور طریقے میں تبدیلی نہیں لائی جاتی اُس وقت تک گندم کی زیادہ پیداوار کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکے گا جو غذائی خودکفالت کا بنیادی نکتہ ہے۔ المیہ ہے کہ غریب مزدوروں‘ کاشتکاروں اُور کسانوں کو سبسڈی تک رسائی حاصل نہیں اُور اُنہیں اپنی فصل کی وہ قیمت بھی بمشکل ملتی ہے جن سے اُن کے اخراجات پورے ہوں اُور پھر مفاد پرست آڑھتیوں کا ایک خاص طبقہ چھوٹے کاشتکاروں کا شکار کر لیتا ہے جبکہ تحفظ دینے میں متعلق حکومتی ادارے دانستہ طور پر ناکام ہیں۔ ضرورت زرعی تحقیق اور زرعی توسیعی شعبوں کی خدمات کو زندہ اُور ازسرنو مرتب کرنے کی ہے۔ بنیادی طور پر چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی کرنے والا کسان کم تعلیم یافتہ ہوتا ہے اُور اُسے کاشت کے جدید طریقوں یا اچھے بیجوں تک رسائی بھی نہیں ہوتی۔ زرعی مشینری سپلائرز‘ بیج اور کھاد کے سپلائرز‘ تاجروں اور فنانسرز‘ خدمات فراہم کرنے والے نجی اداروں کو ’تجارتی زراعت‘ میں پوشیدہ ترقی کے مواقع دیکھنے چاہیئں۔ توجہ طلب ہے کہ جدت طرازی کی صورت خطرہ مول لئے بغیر زرعی تحقیق و ترقی میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔آب و ہوا کی تبدیلی‘ بالخصوص بارشوں کے بدلتے ہوئے اطوار (پیٹرنز) جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے زیادہ متحرک زرعی شعبہ ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان و سندھ کے خشک علاقوں میں زیادہ بارشیں دیکھنے میں آئی ہے اُور محکمہئ موسمیات نے رواں برس کے لئے بھی گزشتہ سال کی طرح غیرمتوقع طور پر زیادہ بارشوں کی پیشگوئی کی ہے جس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے۔ گندم کے ممکنہ رقبے میں اضافہ اپنی جگہ ضروری لیکن زیرکاشت رقبے کے لئے موسمیاتی اثرات سے محفوظ علاقوں کا انتخاب اُور سائنسی بنیادوں کاشتکاری وقت کی ضرورت ہے۔ زراعت پاکستان کی معاشی مشکلات کا صرف حل ہی نہیں بلکہ پائیدار حل ہے اور اگر اِس کی اہمیت کا ’کماحقہ ادارک‘ مقصود ہو تو ایک چست زرعی پیداواری نظام میں سرمایہ کاری کی ضرورت کو محسوس کرنا ہوگا۔ بارش زیادہ ہوں تو یہ اور بھی اچھا ہوتا ہے لیکن اگر پانی ذخیرہ کرنے کا خاطرخواہ انتظام موجود ہے۔ موجودہ صورتحال میں گندم کی بوائی کے لئے ان پٹ‘ افرادی قوت اور آلات کو فوری طور پر خشک علاقوں کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاؤہ زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کو پرکشش بنانے کے لئے ٹیکسوں میں چھوٹ کی ضرورت ہے تاکہ زرعی ٹیکنالوجی درآمد کی جا سکے اور پانی کو ذخیرہ کرنے اور پانی کی تقسیم و فراہمی کے لئے چھوٹے ڈیموں میں نجی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا سکے۔