گذشتہ سے پیوستہ

ہوائے چمن کا درست رہنا بہت ضروری ہے۔ کبھی جو پُروا چلتی ہے تو غنچے کھل اٹھتے ہیں ۔مگر کبھی یہ پُروائی چلے تو تباہی میں بدل جاتی ہے ‘سب کچھ اکھاڑ کر پھینک دیتی ہے‘ اسکے راستے میں راست درخت آئیں یا ٹیڑھے میڑھے کج کلاہ ہوں شاخوں کو الگ اور تنوں کو جدا کر کے رکھ دیتی ہے۔گذشتہ سے پیوستہ روزشام چھ بجے جو ہوا چلی تو اس کو ہوا کہنا بھی درست نہ ہوگا ۔ کیونکہ ہوا توروز چلتی ہے۔ یہ تو آندھی اور طوفان تھا جھکڑ اور ہر سو بربادی کے مناظر ساتھ میں بارش کا ریلا بھی تھا ۔پلاسٹک کے شاپر لاہور اڈے کے پاس یوں اُچھل کر دور جا رہے تھے جیسے تیز دریا میں بہہ کر چلے آتے ہوں۔ جی ٹی روڈ اور رنگ روڈ کے سنگم پر بنے پل پر سے سرکاری سائن بورڈ اٹھا کر زمین پر پٹخ دیئے ۔ اتفاق سے اس وقت انھیں مقامات پر ہم بھی موجود تھے۔ہم نے بھی دیکھا کئے۔ مگر ہم نے تو جانا تھا بلکہ بیک ٹو دی پویلین جانا تھا یعنی گھر کو پہنچنا ۔کیا جانے یہ طوفان شدت اختیار کر جائے اور وہاں گھروالے ہمارا انتظار کرتے رہ جائیں کہ آدمی گھرسے تو نکلا ہے مگر واپسی کی راہ شاید بھلا بیٹھا ہے ۔کیونکہ ایک آدھ ایکسیڈنٹ ہو جائے تو پھر گھر والے بھی خبر گیری کو چست ہو جاتے ہیں ۔ بھئی کہاں ہو خدا خیر کرے دیر کیوں لگا دی ہے ۔کیونکہ ہماری زوجہ جو بھی ہے ہماری 
موٹر سائیکلنگ سے متفق نہیں ہے اور ساتھ بچے بھی شکایت کناں ہیں کہ آپ بائیک ٹھیک نہیں چلاتے ۔مگر ہم کیا جواب دیں۔ ہم تو ٹھیک ہی چلاتے ہیں۔ہاں اگر بائیک پر چھوٹے بڑے گھرکے افراد با افراط سوار ہوں تو ہم بائیک تو نہیں چلاتے ہم تو اس وقت جمبو بوئنگ جہاز چلاتے ہوتے ہیں۔ایسے میں بطخ کی طرح یا پچھل پہری کی طرح ہمارے پا¶ں ہوتے تو پیچھے ہیں مگر ہم خود ٹینکی پر کسی معصوم بچے کی طرح بٹھا دیئے جاتے ہیں۔اس دن کی بادِ صر صر نے تو لوگوں کے گھر تک ویران کر دیئے۔ پشاور سے لے کر پورے کے پی میں تباہیوں کی نئی داستانیں رقم کر ڈالیں۔پھر بجلی چمکی او رکڑاکے کی بجلی جو کڑ کرکرتی تو ہم سوئے آسمان نگاہ اٹھاتے کہ یا الہٰی خیر ۔ایسے میں بادلوں کے بھری پُری مشکیں شراک سے چھلک جاتیں اور بارش ایک ہی پانی کے تودے کی طرح زمین پر آ رہتی ۔جس کا جہاں موقع لگا اس نے وہاں پنا ہ لی ۔ مگر ہم تو بائیک پر تھے کیا پتا پناہ لیں تو کتنی دیر لینا ہوگی ۔کیونکہ بارش کا کیا پتا کب ہو اور ہو تو کتنی ہو پھر ہو جائے تو کب رکے ۔مگر حیرانی یہ ہوئی کہ تھوڑا آگے گئے تو دھوپ کو چمکتا ہوا دیکھا ۔ موسموں کی پیش گوئیوں کے ساتھ ہمارا بھی سوتیلا سہی مگر رشتہ تو ہے ۔اندازہ یہ تھا کہ اب کے اگر بادل گرج رہے ہیں تو یہ اس امر کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے کہ اس بارش کے بعد گرمی اور زیادہ ہو جائے گی۔ کیونکہ گرمی کے قریب کی بارشیں خوب برستی ہیں۔دل نے کہا اچھا ہوا کہ بارش ہوگئی اچھا ہوا کہ سبزہ دُھل کر نکھر گیا ۔ورنہ ان دھول دھبوں اور مٹی گرد و غبار کی صفائیوں کے لئے پورے شہر کی سڑکوں کے لئے کتنا عملہ آتا او رکہاںتک ان کو صاف کرتا ۔مدتوںسے جو میل کچیل سڑکوں پر جم چکا تھا وہ پانی کے ساتھ بہہ کر دور جا گرتا ہے ۔بارشیں صفائی کے محکمہ کو بہت اچھی لگتی ہوں گی او راس کے ساتھ کوڑے ڈھیروں پر سے کتوںاور کووں کا آ کر اپنے حصے کا کھاجا اٹھانا اور ڈھیر کو اوپر اوپر گنجا کر کے کباڑ والوں کے لئے چھوڑ دینا بھی ان کی ایک قسم کی مدد کرنا ہے۔میں نے جو کوڑے کے ڈھیر گلی 
کوچوں کے اندر بہت بڑے بھی ہوں تو ایک دن لبالب اور دوسرے دن خالی خالی دیکھے ۔اب خیر سے عید آئے تو ان ڈھیروں پر قربانی کے جانوروں کی ساری آلائشیں پھینک دی جائیں گی ۔ پھر جس جس فردکو جس چیز کی ضرورت ہوگی وہ یہاں سے اٹھا لے گا۔باقی کا سامان آکر عملہ صفائی کے اہلکار ٹھکانے لگا دیں گے ۔پچھلی او راس سے پچھلی عید پر عملہ صفائی کو بھرپور کامیابی ملی تھی ۔اس بار ان کا الگ انداز سے امتحان ہے دیکھیں اب یہ اس سال کیا کرتے ہیں۔پچھلے موقع پر تو ہم نے ان کو مارکنگ میں اچھے خاصے نمبر اور پھر اضافی نمبر بھی دیئے تھے ۔مگر اس سال تو کیا ان کا امتحان ہوگا ۔اس سال تو مزید مال مہنگا ہونے کی وجہ سے قربانیاں ہی کم ہوں گی۔” دیکھیں کیاگزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک“۔کیونکہ ہر دریا کی ہر موج میں دام پوشیدہ ہے ۔حالات کس رخ پر کروٹ لے رہے ہیں اور کل کیا ہوگا کسی کو کچھ معلوم نہیں۔کس کو کیا معلوم ہوگا کہ پرسوں کی گرمی میں اچانک شام سمے موسم بہترین ہو جائے گا ۔ ہوا ماحول کو خوبصورت بنا دے گی ۔ ہر چند چھپر اڑیں گے اور درختوں کے پنچھی بھی اڑن چھو ہو جائیںگے مگر دل کے پنچھی دور بھی ہوں تو اس موسم میں درختوں کی گھنیری شاخوں پر آن کر بیٹھ جاتے ہیں۔