کانٹے دار جھاڑیاں

تزک جہانگیری میں شاہ جہانگیر نے پوٹھوار کے علاقے کے بارے میں کافی کچھ لکھا خاص طور پر” موسم کا اعتبار نہیں“ لکھ کر دریا کو کوزے میں بند کر دیا جب میں پشاور سے پوٹھوار کے علاقے میں شفٹ ہوئی تو ایک پل میں دھوپ اور دوسرے پل میں بادلوں کی گڑگڑاہٹ کو خود آنکھوں سے دیکھا‘ 21جون کا ہی دن تھا شاید نوے(90) کی دہائی تھی اسلام آباد گرم ترین دھوپ میں آگ برسا رہا تھا ایک دم ہی کوہ مری کا پروگرام بن گیا‘ اور وہاں بادل بارش اور سردی نے خیر مقدم کیا‘ ڈاکخانے کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر رب کی شان کی تعریف کی‘ موسموں کا حال تو صرف رب ہی جانتا ہے موسم کے حالات بتانے والے کوئی حتمی پیش گوئی نہیں کر سکتے‘ کینیڈا میں اگر گرمی کا موسم بھی ہو تو بغیر شال‘ جیکٹ یا ہلکا سوئٹر ہاتھ میں لئے بغیر نکلنا غفلت کے زمرے میں آتا ہے‘ کیونکہ موسم کے بدلنے کا یہاں کوئی وقت مقرر نہیں ۔ایک گلی میں گرمی ہے تو دوسری گلی میں ہلکی سی سردی اور کہیں کسی اور گلی محلے میں ٹھٹھرتی ہوئی سردی... چونکہ موسم کے اثرات آپ کا جسم براہ راست اپنے اوپر محسوس کرتا ہے اس لئے اس کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے‘ اور پھر ایسا نہیں ہوتا کہ واپس گھر جا کر موسم کا سامان کیاجا سکے‘ عقلمند لوگ اپنی گاڑیوں میں اپنا گرم اور ٹھنڈا لباس ضرور رکھتے ہیں‘ کینیڈا میں جون کے مہینے میں تمام پارکس سرکاری طور پر کھل جاتے ہیں جو پارکس سہولیات سے مزین ہیں جہاں باربی کیو کیلئے گیس کے پائپ پانی کے پائپ اور چولہوں کی دستیابی موجود ہے‘ یہ ایکڑوں پر پھیلے ہوئے پارکس گورنمنٹ کو ٹکٹ کی صورت میں فنڈز مہیا کرتے ہیں ۔گاڑی کی پارکنگ کا ٹکٹ اور افراد کا ٹکٹ‘ اس طرح دو تین طرح سے گورنمنٹ کو فائدہ ہوتا ہے‘ صرف وہی لوگ پارک استعمال کرتے ہیں جو ٹکٹ کے پیسے دے سکتے ہیں‘ گورنمنٹ لوگوں کا پیسہ پارک کی صفائی ستھرائی کےلئے استعمال کرتی ہے ۔اس لئے خوبصورت ترین درخت‘ ہموار گھاس‘ آنے والوں کو ملتے ہیں اور وہ اپنے خاندانوں کے ساتھ اس کا لطف اٹھاتے ہیں تیسرا یہ کہ لوگ کم ہوتے ہیں جس سے تازگی کیساتھ نظاروں کو دیکھ کر خوشی میں اضافہ ہوتا ہے سال2023ءکینیڈا کے لوگوں کیلئے شاید ایک طرح سے سوچ بچار کا سال ہو جائیگا کہ ساحل سمندر پر جانے کیلئے حکومت وقت سے آن لائن جا کر اجازت لینا ہوگی جو دن اور وقت کا تعین کریگی ماضی قریب میں کینیڈا کے ساحلوں پر لاکھوں لوگ اُمڈ پڑے جس سے ساحل کو انجوائے کرنے والوں کی خوشی میں بے تحاشہ فرق پڑا اور جھیل کی وہ پٹیاں جن پر تیراکی کی اجازت ہے لاکھوں لوگوں کے تیرنے سے نہ صرف متاثر ہوئیں ۔کئی واقعات میں لوگوں کی جان بھی چلی گئی‘ آبادیوں کے اس بے تحاشہ دباﺅ کا سامنا آبادیوں کو ہی کرنا پڑتا ہے اب منہ اٹھاکر کوئی بھی کسی ساحل پر نہیں جائیگا‘ اب ہم دیسیوں کے تو پروگرام بھی اچانک بنتے ہیں اور جگہ کا تعین بھی ہم اپنے راستوں میں طے کرتے ہیں تو نہ جانے کیا ہوگا لیکن بہرحال حکومت وقت سے اجازت لینا ضروی ہو جائیگا‘ گرمیوں کے مہینے مغرب میں بڑی خوشیاں لے کر آتے ہیں موسموں کی سختی اتنی زیادہ ہے کہ گرم ملکوں کے رہنے والے گرمی کو زیادہ سے زیادہ تفریح کا ذریعہ بناتے ہیں باغات‘ ونڈرلینڈ‘ جھیلیں ریستوران ہوٹل لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں جو بہت امیر لوگ ہوئے اور اخراجات کے متحمل ہو سکتے ہیں وہ یورپ کے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ ایک بات میں نے یہاں بہت دیکھی ہے اور اس سے سیکھا بھی ہے کہ ان لوگوں کی تفریحات کی منصوبہ بندی ایک سال پہلے ہوتی ہے ہوٹل‘ جہاز سال پہلے بک ہو جاتا ہے اگر چھٹی کی ضرورت ہے تو بروقت دفاتر کو آگاہ کر دیا جاتا ہے ایک سال پہلے ہوٹل اور جہاز کی بکنگ آدھے سے کم پیسوں میں ہو جاتی ہے‘ میں نے اپنے چند عقلمند مسلمان بہن بھائیوں کو عمرے پر بھی جانے کیلئے مہینوں پہلے منصوبہ بندی کرتے ہوئے دیکھا اس طرح ان کو پانچ ستاروں والے ہوٹل اور جہاز کی بکنگ اپنے اخراجات کے لحاظ سے بہت کم پیسوں میں مل جاتی جو لوگ بیرون ممالک کی سیاحت کے اخراجات پورے نہیں کرسکتے وہ کینیڈا کے اندر ہی تفریح کے پروگرام بناتے ہیں کیوبک کینیڈا کے خوبصورت ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے کینیڈا بہت وسیع و عریض رقبے کا حامل ملک ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے شہر کی سہولتوں میں خاص فرق نہیں لگتا ہے حکومت صرف اپنے عوام کی بھلائی اور فلاح وبہبود کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرتی‘ ایسے میں آپ سوچیں کہ جب غریب اورترقی پذیر ملکوں کے میرے جیسے لوگ اپنے بارے میں سوچنے لگتے ہیں تو فکریں‘ غم اور سوچیں کتنی پگڈنڈیوں پر گھماتی رہتی ہیں کتنے ہی کانٹے اور کانٹے دار جھاڑیاں دل اور پاﺅں زخمی کرتی رہتی ہیں پھر ایک دعا شدت سے لبوں پر آتی ہے اور وہ امن وامان اور اپنے پیارے لوگوں کی عافیت کی ہوتی ہے۔