ڈینگی وائرس پھیلنے کا عمل جاری ہے۔ رواں سال کے اوائل میں یہ جرثومہ ماضی کے مقابلے زیادہ شدت سے پھیلا ہے جس کے باعث ’ڈینگی بخار‘ نامی بیماری عام ہے‘ جو ایک وائرل انفیکشن ہے اور یہ ایک متاثر شخص سے دوسرے صحت مند شخص میں منتقل ہو سکتی ہے۔ ڈینگی ایک خاص قسم کے مچھر کی وجہ سے پھیلتی ہے جسے ’ڈینگی مچھر‘ کہا جاتا ہے‘ اگر ہم گزشتہ دو برس کی بات کریں تو پاکستان میں ڈینگی تباہی مچا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال پنجاب کے 189 اضلاع میں ڈینگی کے 29 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں فیصل آباد سے تیرہ مریض اور ملتان سے بھی اتنی ہی تعداد میں مریض شامل ہیں۔ راولپنڈی سے بھی ڈینگی کے کم از کم نو جبکہ اسلام آباد سے بھی کم از کم 9 ڈینگی کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ڈینگی کا حملہ جولائی اور اگست کے درمیان مون سون بارشوں کے بعد ہوتا ہے لیکن اِس سال ڈینگی وقت سے پہلے (جلدی) اور عمومی رفتار) سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلا ہے۔ محکمہ¿ صحت کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ ڈینگی کا پھیلاو¿ روکنے اور اِس بیماری پر قابو پانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اِن اعلانات اور دعوو¿ں کو پورا کرنے کے لئے اخلاص عمل سے اقدامات کئے جائیں گے۔ گزشتہ برسوں کے دوران ملک میں ڈینگی وائرس کی وجہ سے سینکڑوں اموات ہو چکی ہیں۔ آبادی کے ایک بڑے غیرمحفوظ حصے کو ڈینگی وائرس سے محفوظ رکھنے کے لئے عملی اقدامات کی صورت ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جس میں سرفہرست ضرورت یہ ہے کہ اِس بیماری کا سبب بننے والے مچھر کی افزائش گاہیں ختم کی جائیں۔ مچھر کا لاروا تلف کیا جائے جو صفائی سے ممکن ہے اور اِس کے لئے صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں بلکہ ہر شہری کو اپنا اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومتی اداروں کی طرف سے ضروری اقدامات میں ڈینگی مچھر کی پیدائش (ویکٹر) سے نمٹنے کے لئے سائنسی بنیادوں پر اور مربوط مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو اِس بات سے بھی آگاہ کیا جائے کہ وہ انفیکشن سے بچنے کے لئے کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ اس میں مچھر دانی‘ سپرے‘ مچھروں سے بچاو¿ اور دیگر تمام طریقوں کا استعمال شامل ہوگا۔ ڈینگی کا مچھر دیگر مچھروں سے دیکھنے میں مختلف ہوتا ہے۔ اِس کے بدن پر دھاری دار سیاہ اور سفید رنگ کی لکیریں ہوتی ہیں۔ ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے بچ کر بھی ڈینگی کا مرض روکا جا سکتا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈینگی مرض اچانک پھیل سکتا ہے تاہم اِس سے نمٹنے کے لئے سالہا سال کا تجربہ اور آزمودہ حکمت عملیاں کام آئیں گی اور ڈینگی پھیلنے کے بعد جلد حالات قابو میں کر لئے جائیں گے جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے تاہم ڈینگی کو پھیلنے نہ دینے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ قبل ازوقت تیاری کے طور پر ہسپتالوں کو ڈینگی سے نمٹنے اور بنیادی و ضروری علاج فراہم کرنے کے لئے تیار ہونا چاہئے اور عوام الناس کو معلومات دینی چاہئے کہ وہ خود کو اور دوسروں کو‘ ڈینگی مچھر سے محفوظ رکھنے کے لئے عملاً کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ تمام محلوں کو اُن علاقوں یا مقامات کو صاف ستھرا رکھنا چاہئے جو باآسانی مچھروں کی افزائش گاہ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ حکومت ملک بھر میں نجی طور پر چلائے جانے والی علاج گاہوں (پرائیویٹ کلینکس) کے ساتھ مل کر بھی ڈینگی انتظامات کر سکتی ہے۔ نجی علاج گاہوں کے وسیع نیٹ ورک کو اگر ضروری سازوسامان فراہم کیا جائے تو مرکزی سرکاری ہسپتالوں پر اچانک زیادہ تعداد میں ڈینگی مریضوں کا پڑنے والا بوجھ بڑی حد تک کم کیا جا سکے گا۔ہر مسئلہ اگر جنم لینے سے پہلے تدارکی اور احتیاطی تدابیر کے ذریعے ختم کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر پالیسی ہے بجائے اس کے کہ حالات خراب ہونے کے بعد ہنگامی طور پر اقدامات کئے جائیں اس صورت میں نہ صرف کثیر سرمایے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات اٹھائے گئے اقدامات نتیجہ خیز بھی ثابت نہیں ہوتے ڈینگی کے حوالے سے ہمیں تیز اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔